بلاگ
Time 05 جنوری ، 2023

افغان باقی، کہسار باقی

اسلام آباد میں ہائی الرٹ نے وفاقی دارالحکومت کی فضا میں خوف وہراس پھیلا رکھا ہے۔ جگہ جگہ ناکے لگائے جا چکے ہیں، راولپنڈی اور پشاور کی طرف سے آنے والی گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔

 پولیس اور خفیہ ادارے روزانہ درجنوں افراد کو حراست میں لے رہے ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ عسکریت پسندوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد پولیس پر خودکش حملہ کرنے والے کی شناخت ہو چکی ہے۔ 23دسمبر 2022ءکے خودکش حملے میں بائیس سالہ ثاقب الدین ملوث تھا جس کا تعلق کُرم سے تھا، وہ کرک سے مردان آیا، رات وہاں گزاری پھر صوابی سے ایک سہولت کار کے ساتھ مسافر بس میں راولپنڈی آیا، راولپنڈی میں ایک اور سہولت کار نے اسے بارود سے بھری جیکٹ فراہم کی، اس نے راولپنڈی سے کچھ فون کالیں بھی کیں جن کا سراغ مل چکا ہے۔

 راولپنڈی سے ٹیکسی میں بیٹھ کر وہ اسلام آباد کے ریڈزون کی طرف روانہ ہوا لیکن راستے میں پولیس نے روک لیا اور اس نے خود کش حملہ کر دیا، مارگلہ کی پہاڑیوں سے پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد کی ویڈیو بنا کر دھمکی کے ساتھ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے اور پولیس ذرائع کے مطابق اس شخص کا تعلق بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ ہے۔ ٹی ٹی پی نے 29نومبر 2022ء کو آرمی کمانڈ میں تبدیلی سے اگلے روز کوئٹہ میں ایک خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرکے یہ پیغام دیا کہ وہ ریاست پاکستان کے خلاف کھلم کھلا جنگ شروع کر چکے ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں ٹی ٹی پی نے اپنے کچھ گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے عوض سیز فائر کا اعلان کیا تھا لیکن عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ سیزفائر ختم کر دیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مزید مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔

 یہ کوئی راز نہیں رہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد ایک بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اسی لئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنے والوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ اس بیان سے یہ تاثر لیا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں ٹی ٹی پی کی سرحد پار پناہ گاہوں پر فضائی حملے کئے جا چکے ہیں، اس لئے افغانستان میں طالبان حکومت کے ذمہ داروں نے خواجہ آصف کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگست 2021ء میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا اور طویل عرصے کے بعد پاک افغان سرحد کی سویلین آبادی ایک دوسرے کی بمباری کا نشانہ بنی۔ اس صورتحال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور طالبان کی قیادت کو جس بالغ نظری اور حکمت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا وہ نظر نہیں آئی۔ پہلے تو عمران خان نے خیبر پختونخوا میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیا اور پھر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان پر افغانستان سے دہشت گرد امپورٹ کرنے کا الزام لگا دیا۔

 طالبان کے بعض وزراء اور ایک طالبان کمانڈر جنرل مبین خان کے بیانات سے مزید غلط فہمیاں پھیل گئیں۔ دونوں ممالک کے ذمہ داران یاد رکھیں کہ اقتدار و اختیار ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ یہ آتا جاتا رہتا ہے، اقتدار و اختیار کو نفرتیں پھیلانے کیلئے استعمال نہ کریں۔ 1947ءمیں جب پاکستان قائم ہوا تو اقوام متحدہ میں افغانستان کے نمائندے نے پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن دونوں ممالک کے عوام کے درمیان جو تاریخی و ثقافتی رشتے ہیں انہیں کمزور نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان اور افغانستان کے اہل اختیار کے درمیان اختلافات کی تاریخ صرف 75 سال پرانی ہے لیکن دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبتوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔

 آج بھی لاہور میں حضرت سید علی ہجویری ؒ(داتا گنج بخش) کا عرس ہوتا ہے تو افغانستان کےشہر غزنی سے لوگ اس عرس میں شرکت کیلئے آتے ہیں کیونکہ یہ مرد درویش غزنی کے محلے ہجویر سے لاہور آئے اور ہجویری کہلائے۔ افغانستان سے آنے والے صوفیاء نے ہمارے خطے میں اسلام پھیلایا، افغانستان کےشہر بلخ میں پیدا ہونے والے مولانا جلال الدین رومی ؒہمارے شاعر مشرق علامہ اقبال ؒکے روحانی مرشد تھے، اقبالؒ نے اپنی شاعری میں افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا۔ اقبالؒ نے کہا تھا ...

افغان باقی، کُہسار باقی

اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ!

جب تک پاکستان میں اقبال ؒزندہ ہے پاکستانیوں کے دلوں سے افغانوں کا احترام ختم نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ممالک کے عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن چاہتے ہیں کہ ہم آپس میں لڑتے رہیں۔ اس لئے دونوں اطراف کے اہلِ اقتدار و اختیار احتیاط سے کام لیں۔ مشکل وقت میں اگر ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تو کسی پر احسان نہیں کیا۔ یہ ہمارا دینی فریضہ تھا، آج افغانستان میں پاکستان کو برا کہنا ایک فیشن ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت صرف پاکستان پر تنقید کرے، حقائق سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ حال ہی میں طالبان نے پورے افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیئے ہیں، اس قدم کی اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم اوآئی سی نے بھی مذمت کردی ہے۔

 57اسلامی ممالک ایک طرف اور طالبان دوسری طرف کھڑے ہیں، پاکستان کے وہ علماء جنہوں نے اگست 2021ء میں طالبان کو کابل فتح کرنے پر مبارکباد دی تھی، اب وہ بھی طالبان سے گزارش کر رہے ہیں کہ خواتین پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنا خلاف اسلام ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا زاہد الراشدی سمیت کئی پاکستانی علماء افغان طالبان کے استادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ سب اگر کسی فیصلے پر نظرثانی کیلئے اصرار کر رہے ہیں تو انکی رائے نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری صاحب مت بھولیں کہ افغان باغیوں کو پاکستان میں پناہ گاہیں فراہم کرنے کا سلسلہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا جب برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کو آئی جی ایف سی نصیر اللہ بابر کا دست شفقت فراہم کیا گیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے لیکن حالات کی نزاکت کو بھی سامنے رکھئے۔ آپ ایٹمی طاقت ضرور ہیں لیکن دوسروں کو دھمکیاں دینے سے پہلے قومی سلامتی کے معاملات پر اتفاق رائے تو قائم کر لیں۔ اتفاق رائے قائم کرنا مشکل ہے تو بڑے بڑے بیانات مت دیا کریں کیونکہ ان بیانات میں جھلکتی تاریخ سے لاعلمی آپ کی مزید کمزوریوں کو بے نقاب کر دیتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔