12 جنوری ، 2023
’’گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے‘‘
ذوالفقار علی بھٹو نے مذکورہ بالا مشہور جملہ 1974ء میں گورنر ہاؤس لاہور میں بولا تھا۔بھٹو صاحب ایٹم بم بنانے کیلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان لائے۔پاکستان نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان دونوں کو عبرت کی مثال بھی بنا دیا گیا ۔
آج پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے لیکن یہ ایٹمی طاقت ان تمام عالمی قوتوں کےسامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے جو پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنا چاہتی ہیں ۔پاکستان کے ممتاز دانشور، محقق اور استاد پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنی آپ بیتی میں بہت سے تاریخی واقعات بیان کئے ہیں، جن کے وہ عینی شاہد ہیں ۔
1974ء میں حنیف رامے پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے وہ فتح محمد ملک صاحب کو ڈیپوٹیشن پر محکمہ تعلیم سے محکمہ اطلاعات میں لے آئے اور ملک صاحب وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بن گئے جس روز بھارت نے راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا تو اگلے روز وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ردعمل دینے کیلئے لاہور آئے ۔گورنر ہاؤس میں ان کے لئے بہت بڑا اسٹیج تیار کیا گیا جس پر تمام صوبائی حکومتوں کے نمائندے موجود تھے ۔اس موقع پر بھٹو نے کہا کہ ہم ایٹم بم ضرور بنائیں گے اگر ہمیں گھاس کھانا پڑی تب بھی ہم ایٹم بم بنائیں گے۔
فتح محمد ملک صاحب نے چند روز قبل شائع ہونے والی اپنی آپ بیتی ’’آشیانہ غربت سے آشیاں در آشیاں‘‘ میں لکھا ہے کہ جب بھٹو نے یہ اعلان کیا تو سامعین میں جوش وخروش نظر آیا لیکن اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اہل اختیار پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر کچھ ہی عرصے میں حنیف رامے سمیت کئی اہم شخصیات پیپلز پارٹی سے بھاگ نکلیں۔
ملک صاحب امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی، جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی اور روس کی سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی کے علاوہ پاکستان کی کئی درسگاہوں میں پڑھا چکے ہیں اور اسی لئے ٹھوس ثبوت کے بغیر کوئی دعویٰ نہیں کرتے ۔انہیں یقین ہے کہ بھٹو کو ایٹمی پروگرام سے باز رکھنے کیلئے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ذریعہ دھمکی دی گئی لیکن جب بھٹو باز نہ آئے تو انہیں ایک خوفناک انجام سے دوچار کیا گیا۔
ملک صاحب کی آپ بیتی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی لیڈر جب مقبولیت کی انتہا پر پہنچتا ہے تو پھر مقبولیت کو قائم رکھنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ ایک معمولی سی غلطی اور قول وفعل کا تضاد اسے ہیرو سے ولن بنا دیتا ہے۔ ملک صاحب لکھتے ہیں کہ 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو پنجاب میں اتنے مقبول تھے کہ سفید ریش بزرگ کہا کرتے تھے اگر بھٹو کسی کتے کے گلے میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ لٹکا دیں تو ہم اسی کتے کو ووٹ دیں گے۔
جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو اپنی پارٹی کو مضبوط نہ کرسکے، پیپلز پارٹی نظریاتی کارکنوں اور ابن الوقت جاگیرداروں کی لڑائی کے باعث کمزور ہوگئی۔ ملک صاحب لکھتے ہیں کہ افسوس صد افسوس پیپلز پارٹی کے جیالوں کو یہ احساس ہی نہ تھا کہ جنرل یحییٰ خان اور اس کے سرپرست امریکی سامراج نے اپنی پے درپے ناکامیوں کے بعد مجبوری میں بھٹو کو اقتدار دیا تھا اور جب بھٹو نے سامراج کو ناراض کر دیا تو انہیں گرانے کیلئے جنرل ضیاالحق کو استعمال کیا گیا ۔ملک صاحب بتاتے ہیں کہ ایک طرف ڈاکٹر مبشر حسن جیسا پڑھا لکھا آدمی ملک معراج خالد کو برداشت نہیں کرتا تھا دوسری طرف مولانا کوثر نیازی نے خورشید حسن میر جیسے نظریاتی لوگوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ ملک صاحب فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز سمیت کئی شاعروں اور ادیبوں کے ذاتی دوست تھے۔
احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تھے لیکن فیض صاحب سے نالاں رہتے تھے ۔وزیر تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ کی طرف سے فیض صاحب کو اور وزیر اطلاعات کوثر نیازی کی طرف سے احمد فراز کوتنگ کیا جاتا تھا۔فیض صاحب کو بھٹو نے اپنا کلچرل ایڈوائزر بنایا لیکن پیرزادہ نے انہیں بھگا دیا ۔فراز صاحب محکمہ اطلاعات کے ایک ذیلی ادارے سے وابستہ تھے کوثر نیازی نے ان کا تبادلہ قلات کروا دیا یہ سازش کامیاب نہ ہوئی تو کوثر نیازی نے فراز کو توہین رسالت کے الزام میں پھنسانے کی کوشش کی لیکن فتح محمد ملک نے احمد فراز کو اس سازش سے بچا لیا۔جب بھٹو حکومت کو ختم کر دیاگیا تو پیرزادہ اور کوثر نیازی نے پارٹی چھوڑ دی لیکن فیض اور فراز جیسے لوگ آمریت کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ۔
ملک صاحب بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا کے دور میں فیض احمد فیض جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا رہے فیض صاحب کو باربار بھارتی حکومت نے مختلف یونیورسٹیوں میں بڑے بڑے عہدے پیش کئے لیکن انہوں نے انکار کر دیا ۔ایک دفعہ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دہلی میں فیض صاحب کی سالگرہ منائی ۔اس موقع پر فیض صاحب نے کہا کہ میری پذیرائی دراصل میرے پیارے وطن کی پذیرائی ہے یہ خبر پاکستان پہنچی تو جنرل ضیا نے فیض صاحب کو پاکستان واپسی کی دعوت دی۔فیض صاحب واپس آئے اور ان کی جنرل ضیا سے ایک خاموش ملاقات ہوئی جس کی روداد فیض صاحب نے صرف فتح محمد ملک اور بیگم سرفراز اقبال کو سنائی ۔
ملک صاحب کی آپ بیتی میں کچھ اور بزرگوں کی عظمت کے واقعا ت بھی موجود ہیں ۔بھٹو صاحب کے دور میں نئی گاڑی خریدنے کیلئے پرمٹ جاری ہوتے تھے جس کی فیس دس ہزار روپے تھی ۔ایک دفعہ ملک صاحب کو پتہ چلا کہ معروف صحافی شورش کاشمیری گاڑی خریدنا چاہتے ہیں ۔ملک صاحب نے ان کےلئے ایک پرمٹ کا بندوبست کیا اور ان کی خدمت میں پیش کر دیا شورش کاشمیری نے بڑے احترام سے یہ پرمٹ واپس کر دیا ۔تحریک ختم نبوت میں پنجاب پولیس جاوید ہاشمی کو ڈھونڈ رہی تھی مجیب الرحمان شامی صاحب نے جاوید ہاشمی کو اپنے گھر چھپا لیا ۔
ملک صاحب نے پولیس کو ہاشمی کی گرفتاری سے منع کر دیا جب وفاقی حکومت نے ملک صاحب سے وجہ پوچھی تو انہوں نے دلیل دی کہ ہاشمی تو ایک گھر میں چھپا بیٹھا ہے کوئی تقریر نہیں کر رہا تو اسے گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ملک صاحب کی آپ بیتی میں بھٹو کی کتاب ’’آزادی موہوم‘‘ پر پورا باب شامل ہے ،یہ کتاب 1969ء میں لکھی گئی جس میں بھٹو نے کہا کہ امریکہ ہمارا دوست نہیں ہمارے دشمن کا دوست ہے اور دشمن کے دوست کی غلامی پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔
امریکہ چاہتا ہے پاکستان کو بھارت کا غلام بنا کر رکھے شاید ملک صاحب نے یہ باتیں آج کی پیپلز پارٹی کے لئے لکھی تھیں ۔2012ء میں وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر تھے ایک عرب ملک کے دباؤ پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں ان کے عہدے سے فارغ کر دیا جس کا ذکر وکی لیکس میں بھی آیا ملک صاحب نے اپنی آپ بیتی کے اختتام میں لکھا ہے کہ ہمیں مغربی سامراج اور عرب ملوکیت کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے غلامانہ طرز فکر کو جرأت اظہار اور خودمختاری میں تبدیل کرنا ہے۔
ملک صاحب کی آپ بیتی ختم کرنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن اس ایٹم بم کو ان سے کیسے بچائیں جن کے سامنے ہم نے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔