23 جنوری ، 2023
خان صاحب کے تازہ سرپرائز نے مجھے صدمے سے دو چار کردیا ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد کی ایک عدالت میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کے لئے دیئے گئے عطیات کی رقم میں سے تیس لاکھ ڈالر کو ایک پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم میں سرمایہ کاری کے طور پر استعمال کیا گیا۔
خان صاحب نے یہ اعتراف وزیر دفاع خواجہ محمد آصف پر ہتک عزت کے دعوے کی سماعت کے دوران کیا ہے۔
خواجہ صاحب نے 2012میں الزام لگایا تھا کہ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام پر قائم کئے گئے کینسر اسپتال کو دیئے جانے والے عطیات کو نجی کاروبار کے لئے استعمال کیا۔ اس الزام کے بعد عمران خان نے خواجہ محمد آصف پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔
خان صاحب کا خیال تھا کہ خواجہ صاحب ان سے معافی مانگ کر جان چھڑانے کی کوشش کریں گے لیکن خواجہ محمد آصف اپنے الزام کو عدالت میں ثابت کرنے کے لئے ڈٹ گئے۔ پھر عمران خان کے وکیل نے اس مقدمے میں تاریخ پر تاریخ لینا شروع کردی۔ اس رویے پر انہیں جرمانہ بھی کیا گیا۔
آخر کار 21 جنوری کو خان صاحب ویڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہوگئے اور خواجہ محمد آصف کے وکیل کی جرح کے دوران یہ مان لیا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کو دی جانے والی امدادی رقم کو کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا تاہم یہ رقم اسپتال کو بغیر کسی نقصان کے واپس کردی گئی تھی۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عمران خان کے اعتراف سے مجھے صدمہ کیوں ہوا؟ دراصل شوکت خانم اسپتال کے ساتھ میرا ایک جذباتی لگاؤ ہے۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب عمران خان مجھے جوہر ٹاؤن لاہور لے کر گئے اور وہ جگہ دکھائی جو انہیں نواز شریف کی حکومت نے کینسر اسپتال بنانے کے لئے الاٹ کی تھی۔ اس وقت یہ جگہ لاہور شہر سے کافی باہر تھی اور وہاں کھیت ہی کھیت تھے۔ پھر ان کھیتوں کی جگہ پر ایک نیا شہر آباد ہوگیا اور عمران خان شوکت خانم کینسر اسپتال قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ صرف ایک فرد کی کامیابی نہیں تھی بلکہ پاکستان کے اندر اور باہر سے لاکھوں افراد نے اپنے عطیات کے ذریعہ عمران خان کے خواب کو حقیقت بنایا۔ لیڈی ڈیانا سے لے کر امیتابھ بچن اور دلیپ کمار سے لے کر نصرت فتح علی خان تک نے کینسر اسپتال کے لئے عطیات اکٹھے کئے۔
کینسر اسپتال کیلئے بھاگ دوڑ کرنے والے لاکھوں افراد میں یہ ناچیز بھی شامل رہا۔ میں نے جناب حبیب جالب سے کینسر اسپتال کے لئے ایک نظم لکھوائی اور ان کی آپ بیتی میں اس نظم کو شامل بھی کرایا۔ جب بھی عمران خان، ڈاکٹر فیصل سلطان اور خواجہ نذیر صاحب نے اسپتال کے لئے عطیات اکٹھے کرنے کے لئے کسی تقریب کی میزبانی کے لئے کہا یا فنڈریزنگ میں شمولیت کا حکم دیا تو سارے کام چھوڑ کر اس میں حصہ لیا۔
نوجوان نسل کو یہ معلوم نہیں کہ 1994میں شوکت خانم کینسر اسپتال کا افتتاح ہوا تو محترمہ بےنظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں لیکن افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم کی بجائے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف کو مدعو کیا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک سے زائد مرتبہ مجھے کہا کہ آپ کا دوست عمران خان کینسر اسپتال بنانے کے بعد سیاست شروع کر دیگا۔ میں جب بھی خان صاحب سے پوچھتا کہ آپ سیاست میں تو نہیں آنے والے؟ خان صاحب ہمیشہ مجھے کہتے کہ میں کوئی پاگل ہوں کہ سیاست میں آؤں گا۔ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہی کہتا کہ عمران خان سیاست میں نہیں آئے گا۔ وہ مسکرا کر کہا کرتیں کہ میں اسے زیادہ پرانا جانتی ہوں۔ وہ دیکھنے میں سیدھا سادہ لگتا ہے۔ دل کی بات زبان پر نہیں لاتا اور ایسا سرپرائز دیتا ہے کہ سب حیران رہ جاتے ہیں۔
میں 1995 میں محمد علی درانی کے گھر اس محفل کا بھی حصہ تھا جہاں جنرل حمید گل صاحب نے عمران خان کو سیاست میں آنے پر راضی کرنے کی کوشش کی اور خان صاحب نے کہا کہ فی الحال ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن چند مہینوں کے بعد انہوں نے تحریک انصاف بنانے کا اعلان کردیا۔ ان کی پہلی تقریر ضیاء شاہد صاحب نے لکھی اور پارٹی کا نام حسن نثار صاحب نے رکھا۔
عمران خان کا سیاست میں آنا میرے لئے واقعی سرپرائز تھا۔ میں نے کئی مرتبہ اس خدشے کا اظہار کیا کہ خان صاحب کی سیاست کینسر اسپتال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے لیکن خان صاحب ہمیشہ یہی کہتے کہ فکر نہ کرو میں سیاست کو اسپتال سے علیحدہ رکھوں گا۔
2002 میں عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد ایم این اے تھے۔ وہ چوہدری نثار علی خان اور خواجہ محمد آصف کے بہت قریب تھے۔ اسی قربت کے نتیجے میں عمران خان نے وزیراعظم کا ووٹ شاہ محمود قریشی کی بجائے مولانا فضل الرحمٰان کو دیا اور قرعہ فال میر ظفر اللہ خان جمالی کے حق میں نکلا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں پاکستان میں نہیں تھے۔ عمران خان نے کھل کر جنرل پرویز مشرف پر تنقید شروع کردی اور عوام میں پذیرائی حاصل کرلی۔
پھر وہ جنرل احمد شجاع پاشا کی آنکھ کا تارا کیسے بنے اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں کیسے وزیراعظم بنوایا؟ یہ کوئی راز نہیں رہا۔
جب عمران خان وزیراعظم بن گئے تو پاکستانی میڈیا پر پابندیوں اور حملوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم خاموش نہیں رہ سکتے تھے لہٰذا تحریک انصاف کے ’’فیض یافتہ‘‘ صاحبانِ اختیار نے ہمیں غدار اور ملک دشمن قرار دینا شروع کردیا لیکن شوکت خانم کینسر اسپتال کیساتھ ہمارا جذباتی لگائو قائم رہا۔
لاہور کے بعد پشاور اور کراچی میں اس اسپتال کی شاخیں قائم کرنے کیلئے فنڈ ریزنگ میں مجھے جب بھی بلایا گیا،میں شامل ہوا۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ عمران خان کے ساتھ سیاسی اختلاف رکھنے والے بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں جو کسی نمود و نمائش کے بغیر شوکت خانم اسپتال کے لئے عطیات اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن وہ کبھی کسی مالی بے ضابطگی میں ملوث نہیں ہو سکتے۔
خواجہ محمد آصف کیخلاف ہتک عزت کے دعوے کی سماعت کے دوران انہوں نے شوکت خانم اسپتال کیلئے دیئے گئے عطیات کو نجی کاروبار میں استعمال کرنے کا اعتراف کرکے مجھ سمیت ان تمام پاکستانیوں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے جو خلوص نیت کے ساتھ اس نیک کام میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔
کیا خان صاحب یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ کینسر اسپتال کیلئے عطیات کو نجی کاروبار میں استعمال کرنے کا اصل ذمہ دار کون تھا اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
میری التجا ہے کہ کینسر اسپتال کوسیاست سے دور رکھا جائے۔ یہ اسپتال کسی فرد واحد نے نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں نے مل کر بنایا ہے۔ ہم توشہ خانہ سے خریدی گئی قیمتی گھڑیوں کے قصے نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن ایک ماں کے نام پر کینسر اسپتال کے لئے عطیات کا غلط استعمال ناقابل معافی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔