Time 10 فروری ، 2023
پاکستان

ضیا طیارہ حادثہ، حادثے کے روز مشرف ساتھ کیوں نہیں جا سکے؟

سابق صدر نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ اسی دن مجھے بھی ضیاالحق کے ساتھ اسی طیارے میں جانا تھا کیونکہ مجھے اس وقت صدر ضیا الحق کا ملٹری سیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا/فوٹوفائل
سابق صدر نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ اسی دن مجھے بھی ضیاالحق کے ساتھ اسی طیارے میں جانا تھا کیونکہ مجھے اس وقت صدر ضیا الحق کا ملٹری سیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا/فوٹوفائل

پانچ فروری 2023 کو دارِ فانی سے کوچ کرجانے والے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی بار موت کو انتہائی قریب سے دیکھا اور قسمت کی دیوی ہمیشہ ان پر مہربان رہی، اسی سے منسلک ایک واقعہ آپ کو بتاتے ہیں جسے انہوں نے اپنی کتاب میں تحریر کیا۔

17 اگست 1988 کو صدر پاکستان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل ضیاالحق ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے ، ضیاالحق کے ساتھ امریکی ساختہ سی ون تھرٹی ہرکولیس طیارے میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل اختر عبدالرحمان، چیف آف جنرل اسٹاف جنرل افضل، میجر جنرل محمد حسین اعوان کےعلاوہ پاکستان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور ڈیفنس اتاشی بریگیڈیئر جنرل ہربرٹ واسوم سمیت 29 افراد سوار تھے۔

اسی روز ضیا الحق بہاولپور کے قریب ٹامیوالی فائرنگ رینج میں امریکی ساختہ ایم ون اے ون اور مقامی طور پر تیار کردہ الخالد ٹینک کی آزمائشی کارکردگی دیکھنے گئے تھے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ اسی دن مجھے بھی ضیاالحق کے ساتھ اسی طیارے میں جانا تھا کیونکہ مجھے اس وقت صدر ضیا الحق کا ملٹری سیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

پرویز مشرف نے لکھا کہ پھر آخری وقت پر میری جگہ ایک اور بریگیڈیئر کو اسی عہدے پر تعینات کردیا گیا، جس کی وجہ سے میں ضیا الحق کے ساتھ نہ جاسکا مگر میری جگہ وہ بریگیڈیئر حادثے کا شکار ہوگیا۔

اپنی کتاب اِن دی لائن آف فائر میں پرویز مشرف نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت بار موت کو شکست دی، قسمت بھی ہمیشہ مجھ پر مہربان رہی ہے۔

مزید خبریں :