بلاگ

ترکیہ میں زلزلہ اور پاکستان

پاکستان اور ترکی، محبت اور اسلامی اخوت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ترکی اور پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں کے عوام ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے تعلق کی ایک تاریخ ہے۔

1919 ء میں جب پہلی جنگ عظیم کے دوران ترک خلافت کا خاتمہ کیا گیا،اور عالمی استعمار نے ایک بڑی اسلامی سلطنت کو کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا،اس وقت ہندوستان کے عوام نے خلافت کی بحالی کے لئے ایک ایسی تحریک چلائی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہندوستان کی مسلم خواتین،بچوں اور بزرگوں نے عثمانی خلافت کے تحفظ اور بحالی کے لئے قربانیاں دیں۔

یہاں تک کہ ماؤں نے اپنے بچوں کو خلافت پر قربان ہونے کی ترغیب دی۔مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ’’بی اماں‘‘ کےجذبات کے اظہارکیلئے اس وقت کے ایک صاحب دل شاعر اقبال سہارنپوری نے سولہ بند پر مشتمل ایک نظم موزوں کی۔اس نظم کا ٹیپ کا مصرع ’’بولیں اماں محمد علی کی،جان بیٹا خلافت پہ دے دو ‘‘پورے برصغیر میں مقبول ہوا۔اس نظم کے پہلے اشعار کچھ یوں تھے۔

بولیں اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ساتھ تیرے ہے شوکت علی بھی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ہو تمہی میرے گھر کا اجالا،

اسی واسطے تم کو ہے پالا

کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

برصغیر کے عوام کی جانب سے ترکی کے ساتھ بے پناہ محبت کے اظہار کی یہ محض ایک مثال ہے۔ورنہ تحریک خلافت کا ایک ایک باب عزم،استقلال اور قربانی سے مزین ہے۔2005 میں جب پاکستان میں زلزلہ آیا تو جو ملک سب سے پہلے پاکستان کی مدد کو پہنچا وہ ترکی ہی تھا۔

برادر ملک ترکی نے پاکستانی عوام کی امداد کے لئے ہر میدان میں خدمات سر انجام دیں، انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے امداد دی، فیلڈ اسپتال قائم کئے،غذائی بحران کو روکنے میں مدد دی،یہاں تک کہ جب سارے غیر ملکی ادارے واپس چلے گئے تب بھی ترک اداروں نے پاکستانی عوام اور زلزلہ زدگان کی خدمت جاری رکھی،آج بھی کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں ترکی کے فیلڈ اسپتال پاکستان اور ترکی کی لازوال محبت کے مظہر بن کر موجود ہیں،اس پس منظر میں 6فروری کو ترکی سے تباہ کن زلزلے کی اطلاعات موصول ہوئیں توپوری دنیا کی طرح پاکستان پر بھی سوگوار کیفیت طاری ہوگئی۔یہ ترکی کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا،جس میں بیس ہزار سے زائد افراد کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔

میڈیا پر آنے والی بعض تصاویر نے پوری قوم کو اداس کر دیا۔ملبے تلے دبے افراد کی تصاویر اور ویڈیوز نے پوری دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا کہ دنیا کے ہر کونے سے لوگ ترکی کی مدد کو پہنچنے لگےلیکن پاکستان کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔

پاکستان اور ترکی کی محبت دنیا کے دیگر ممالک سے جدا ہے،مصیبت اور مشکل کی اس گھڑی میں ترک عوام سے اظہار محبت پاکستان پر قرض ہے۔ابتدائی دنوں میں یہ مضحکہ خیز اطلاعات بھی سننے کو ملیں کہ وزیراعظم اور وزیرخارجہ اپنا لاؤ لشکر لے کر ترکی سے اظہار تعزیت کے لئے وہاں جانا چاہتے ہیں۔

میں حیران ہوں کہ دفتر خارجہ میں بیٹھے بزرجمہروں اور ایوان اقتدار پر قابض حکمرانوں کو ان سفارتی نزاکتوں کا ذرا بھی احساس نہیں۔ کیا وہ اس شعور سے کلیتاًعاری ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بھاری بھرکم وفد کے ساتھ وہاں جا کر مسلط ہوجانا کون سی خدمت ہے؟اس سے قبل 1999ءمیں زلزلے کے موقع پر شرمناک منظر دیکھنے کو ملا تھا، جب اس وقت کے وزیراعظم ترکی سے اظہار تعزیت کے لئے تشریف لے گئے تھے اور ترک میزبانوں سے مخصوص ریستوران کے کبابوں کی فرمائش کر کے پاکستانی سفارتکاروں اور ترکوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔

ترکی جانے کی خواہش کا اظہار کرنے کی بجائے زیادہ بہتر ہوتا کہ اپنی استطاعت کے مطابق ترک عوام کی خدمت کا فیصلہ کیا جاتا (جو کچھ دیر بعد کیا گیا)،عوام کو علامتی اظہار یکجہتی کے لئے متحرک اور متوجہ کیا جاتا،میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام پر ترک عوام کی محبت کا قرض ابھی باقی ہے،ایک معاصر کالم نگار کی جانب سے اپنے کالم میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک ذمہ دار افسر کے حوالے سے، 2005 کے زلزلہ کے بعد ترک عوام کی پاکستان سے محبت کے کچھ مناظر تحریر کئے گئے،کاش اس طرح کی محبت کا اظہار پاکستانی حکومت کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملتا،تاہم یہاں بھی سماجی تنظیمیں حکومت سے بہت پہلے میدان عمل میں اُتریں،اس بڑے نقصان کے تین دن کے اندر، پاکستان سے ہی تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک عالمی فلاحی تنظیم مسلم ہینڈز انٹرنیشنل کےچیئرمین سید لخت حسنین شاہ امدادی ٹیموں کے ہمراہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے۔

ترکی میں پہلے سے ہی اس تنظیم کا نیٹ ورک موجود ہے،اس تنظیم کے رضا کار نہ صرف ’’ریسکیو‘‘ آپریشن میں حکومت اور اداروں کی مدد کر رہے ہیں بلکہ بحالی کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں،مسلم ہینڈز انٹرنیشنل کی طرح المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ اور دیگر فلاحی ادارے بھی اس حوالے سے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترک ایک غیرت مند قوم ہیں،وہ خیرات کی صورت میں امداد کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے،ترک حکومت نے بھی کئی بنیادی اقدامات کئے ہیں۔

مکانات کے کرایوں اور ٹیکس کی مد میں عوام کو ریلیف فراہم کیا ہے۔صدر طیب اردوان ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔تاہم پاکستان سے تعلق رکھنے والی عالمی فلاحی تنظیموں کا یہ فرض ہے کہ وہ ترک عوام کی اس طرح خدمت کریں جس طرح 2005 میں ترکوں نے پاکستانیوں کی خدمت کی تھی۔پاکستانی قوم کو بھی آگے بڑھ کر اس مصیبت کی گھڑی میں ترک عوام سے اظہار محبت کرنا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔