01 مارچ ، 2023
صدیوں کی بات ہے نہ عشروں کی۔ صرف ساڑھے چار سال قبل کی بات ہے۔ 2018 کے انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی، اے این پی، پختونخوا میپ، بی این پی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور حتیٰ کہ پی ایس پی کا حق بھی چھینا گیا۔ پیپلز پارٹی کو منت ترلے کے بعد سندھ دلوایا گیا لیکن مطمئن وہ بھی نہیں تھی۔
انتخابات کے بعد ان تمام جماعتوں نے سراج الحق کی دعوت پر اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔ رونا دھونا ہوا۔ انتخابی عمل اور نتائج کو مسترد کیا گیا لیکن عملاً کچھ بھی نہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد عمران خان اور ان کے سرپرستوں نے مل کر نون لیگ کی قیادت کو جیلوں میں ڈالا۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی نیب سے نوٹس ملنے لگے ۔ تابعداری کے باوجود زرداری کو معافی نہ مل سکی اور ان کے ساتھ ان کی ہمشیرہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ میڈیا پر قدغنیں لگیں ۔ عدلیہ سے انصاف ملنا مشکل ہو گیا۔ بس فریاد اور آہ و زاری ان لوگوں کی قسمت بن گئی تھی جبکہ دوسری طرف عمران خان اور ان کے ساتھی دندناتے پھررہے تھے۔
میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف جیل میں تھے کہ بیگم کلثوم نواز شریف کا انتقال ہو گیا۔ یوں جمہوریت پسند اور انسان ہونے کے ناطے ہم بھی ان کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔ زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو عدالتوں میں آتے جاتے دیکھ کر ان سے بھی ہمدردی پیدا ہو جاتی۔ مولانا کی بے بسی اور بے روزگاری کا بھی ہمیں دکھ تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہم دیکھ رہے تھے کہ انتخابات میں زیادتی ہوئی ہے اور احتساب نہیں بلکہ سیاسی انتقام سے کام لیا جا رہا ہے، کوئی ایک راستے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کرکے منت ترلہ کررہا تھا اور کوئی دوسرے راستے سے۔
جب زرداری صاحب آگے بڑھے اور پی ڈی ایم تشکیل دی تو ہمیں خیال ہوا کہ سیاستدانوں نے کچھ نہ کچھ سیکھ لیا ہے اور شاید اب وہ دوبارہ وہی غلطیاں نہیں دھرائیں گے جو ماضی میں دھراتے رہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد زرداری صاحب ڈیل کرکے پی ڈی ایم سے نکل گئے۔ یوں ان کے بارے میں قائم ہونے والا حسن ظن دم توڑ گیا لیکن مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی وغیرہ کے بارے میں کسی حد تک برقرار رہا تاہم ہم دیکھ رہے تھے کہ عمران خان کی فسطائی حکومت کا خاتمہ ان کے بس کی بات نہیں لیکن یہ خوش فہمی ضرور تھی کہ اگر کبھی موقع ملا تو اب کے بار وہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی وغیرہ کبھی عمران خان اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑسکتی تھیں لیکن بھلا ہو عمران خان کا کہ اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو کر انہوں نے اپنے سرپرستوں کے گریبانوں میں بھی ہاتھ ڈال دیا۔ چنانچہ ان کی حکومت کو جو غیرقانونی بیساکھیاں فراہم کی گئی تھیں، وہ ہٹا دی گئیں۔ ان کی حکومت دھڑام سے گر گئی اور میاں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ ایک ایسی حکومت تھی جسے ہم قومی حکومت کا نام دے سکتے ہیں کیونکہ اس میں سوائے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ملک کی تمام جماعتیں شامل ہیں۔ لوگوں کو امید تھی کہ یہ قومی حکومت ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں کسی حد تک کامیاب ہوجائے گی۔
ہم توقع لگائے بیٹھے تھے کہ اتنی مار پڑنے کے بعد نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جےیو آئی وغیرہ نے عبرت پکڑلی ہوگی اور اب کے بار ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ یہ تینوں جماعتیں اقتدار پر ایسے ٹوٹ پڑیں کہ جیسے روزہ دار افطار کے وقت کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو پی ڈی ایم کے سینئر نائب صدر آفتاب شیرپاؤ بھی یاد نہیں رہے۔ نہ ان سے مشورہ کیا اور نہ اپنے لئے وزارتیں لیتے وقت ان کے لئے کوئی وزارت مانگی۔ دوسری طرف زرداری صاحب، اپنی قریبی اتحادی جماعت اے این پی کو بھول گئے اور اسے حکومت میں حصہ دلوانا تو درکنار شریک مشورہ بھی نہ کیا۔
ان لوگوں کو اقتدار میں آنے کے بعد ایسی جلدی تھی کہ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں پی ڈی ایم کے سینئر نائب صدر آفتاب شیرپاؤاور اے این پی کی قیادت کو مدعو کرنا بھی بھول گئے۔ پھر کیا تھا۔ وزارتوں کی بندربانٹ پر جھگڑے شروع ہوئے۔ میاں شہباز شریف وزارتوں اور بیوروکریسی میں اپنے گروپ کے لوگوں کو جب کہ نواز شریف صاحب اپنے گروپ کے لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنے میں لگ گئے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے لئے حصہ بقدر جثہ لے لیا۔ مولانا زیادہ ذہین نکلے اور اپنے حصے سے زیادہ لے گئے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور بی این پی وغیرہ کو بھی حصہ دیا گیا۔ چنانچہ وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی کی ایک بڑی فوج بن گئی لیکن پیپلز پارٹی کے وزرا وزیراعظم کی بجائے زرداری سے، جے یو آئی کے وزرا اپنے لیڈر سے لائن لیتے ہیں۔ ایم کیوایم اور باپ پارٹی کے وزرا کی اپنی اپنی لائن ہے ۔ یوں وزیراعظم وزرا سے اس طرح پیش نہیں آسکتے جس طرح کہ ایک ٹیم لیڈر پیش آتا ہے۔ دوسری طرف بیورو کریسی میں بھی یہ سب اپنی اپنی مرضی کے لوگ لائے ہیں اور وہ ریاست یا حکومت کی ترجیحات کی بجائے اس پارٹی سے لائن لیتے ہیں جس کے کوٹے میں ان کی تعیناتی ہوئی ہے۔
چنانچہ یہ تاریخ کی ایسی حکومت ہے جس کی کوئی سمت نہیں۔ دوسری طرف حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں کی ترجیح یہ رہی کہ اپنے کیسز کو ختم کریں۔ چنانچہ حکومت کی شکل میں ایک کچھڑی بن گئی جس سے نہ معیشت کنٹرول ہورہی ہے اور نہ عمران خان قابو میں آرہے ہیں۔ معیشت کی خرابی کی وجہ سے حکومت میں شامل جماعتوں کی پاپولیرٹی زمیں بوس ہورہی ہے اور اس کا فائدہ عمران خان کو مل رہا ہے۔ دوسری طرف یہ حکومت عوام کے سامنے اپنا بیانیہ بھی نہیں بناسکی اور لوگ جب زرداری، شہباز شریف اور مولانا وغیرہ کو ایک ساتھ اقتدار میں دیکھتے ہیں تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے اور لامحالہ ان کا ووٹ عمران خان کی طرف جاتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت میں شامل تمام جماعتیں کچھ کرنے اور قربانی دینے کی بجائے اقتدار انجوائے کررہی ہیں اور یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وہی لوگ عمران خان کو قابو کرلیں گے جو انہیں لائے تھے لیکن وہ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ شاید یہ حکومت بھی ان کے لئے بوجھ بن جائے۔ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا جواب جاننے کے لئے ذہن پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔