Time 15 مارچ ، 2023
بلاگ

توشہ خانہ کا حمام

حکومت نے توشہ خانہ کی 2001 سے2023 تک کی جو تفصیلات پبلک کی ہیں اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ کوئی کم اور کوئی زیادہ، لیکن کم و بیش اس حمام میں سب عریاں ہیں ۔ تینوں بڑی پارٹیوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور تمام اداروں سے وابستہ لوگوں نے اپنی اپنی استطاعت اور ظرف کے مطابق اس سے استفادہ کیا۔

 جس نام سے مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی وہ شاہد خاقان عباسی صاحب کاتھا کیونکہ جس سادگی کے ساتھ انہوں نے بطور وزیراعظم کام کیا اور جس بہادری کے ساتھ نیب کی ناجائز قید کاٹی، اس کی وجہ سے میرے دل میں ان کا مقام بہت بلند ہوگیا تھا۔پھر اس کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے جو دلیل دی اس سے بہت تکلیف بھی ہوئی کیونکہ ان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ تحفہ کرسی کو نہیں شخصیت کو ملتا ہے ۔ 

وہ جب خود نجی دورے پر بغیر سرکاری پروٹوکول کے امریکہ گئے تو انہیں کتنے تحائف ملے؟ دراصل یہ جو تحائف ملتے ہیں وہ فرد کو نہیں بلکہ اس کرسی کو ملتے ہیں جس پر وہ شخص براجمان ہوتا ہے ۔ ورنہ ان میں کون محمد بن سلمان کا چچازاد یا طیب اردوان کا ماموں زاد ہے۔اسی طرح ہمارے حکمران جو تحفے دیتے ہیں، وہ جیب سے نہیں بلکہ سرکار کے خزانے سے خرید کردیتے ہیں۔

جانتا ہوں کہ شاہد خاقان عباسی، نواز شریف ، آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی ، جنرل پرویز مشرف ، شوکت عزیز (آج کل بعض لوگ ٹیکنوکریٹ حکومت کی بڑی بات کررہے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سب سے زیادہ تحائف اسی ٹیکنوکریٹ وزیراعظم نے ہڑپ کئے) اور دیگر نے جو کچھ کیا وہ قانونی لحاظ سے کوئی جرم نہیں لیکن اخلاقی لحاظ سے بہت بڑا جرم ہے ۔

اخلاقاََ جرم میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے توشہ خانہ کے تحائف بیچ کر جمع شدہ رقم غریب بچیوں کی تعلیم کیلئے دی جبکہ اس خطے کے غریب ترین ملک کے امیر ترین حکمرانوں نے دوست ممالک کی شخصیات سے ملنے والے تحائف کو اس بری طرح ہڑپ کیا۔ اگر تسبیح، کتب، جائے نماز، قالین، پینٹنگز ، سووینرز، کھجور اور اسی نوع کی چیزوں کو توشہ خانہ سے اپنے پاس ایک نشانی کے طور پر رکھا (Retain) جاتا تو یہ ایک قابل تحسین عمل ہوتا لیکن یہاں تو ارب پتیوں نے وہی تحفے وصول کئے جن کی مالیت لاکھوں یا کروڑوں میں تھی۔ یہ تو وہ تحائف ہیں کہ جو بیرون ملک سے ملے حالانکہ ہمارے حکمران طبقات (وزیراعظم، وزیر مشیر،سول و ملٹری بیوروکریٹس اور ججز وغیرہ) کو اصل تحائف تو ملک کے اندر ملتے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔

سیاسی غیرت کا تقاضا تویہ ہے کہ ان میں سے جو جو زندہ ہیں وہ ان تحائف کی اصل رقم سرکاری خزانےمیں واپس جمع کرواکے قوم سے معافی مانگیں نہیں تو وزیر اعظم شہباز شریف جو اس معاملے میں نسبتاً بچے رہے، قانون بنائیں کہ توشہ خانہ سے وصولی کرنے والے تمام لوگ ملک کی موجودہ تباہ کن معاشی صورت حال کے تناظر میں تحائف کی اصل قیمت جمع کرائیں۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک اور بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ اس وقت ہر کوئی توشہ خانہ توشہ خانہ کھیل رہا ہے لیکن کوئی اس شخص کو خراج تحسین پیش نہیں کررہا جس نے اس ایشو کو منظر عام پر لانے کیلئے بہت بڑا خراج ادا کیا۔ اس کا نام رانا ابرار خالد ہے ۔ وہ قربانی نہ دیتے تو نہ آج عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس ہوتا ، نہ میڈیا کو اس سے کھیلنے کا موقع ملتا، نہ کوئی عدالت تفصیلات پبلک کرنے کا حکم جاری کرتی اور نہ کوئی حکومت تفصیلات جاری کرتی ۔

 رانا ابرار خالد جو اس وقت ایک ٹی وی چینل کا رپورٹر تھا کو معلوم ہوا تھا کہ توشہ خانہ کے معاملے میں عمران خان کی حکومت بہت گڑبڑ کررہی ہے ۔ چنانچہ اس نے اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت تفصیلات مانگیں ۔ پہلے انہیں ایک وفاقی سیکرٹری کے ذریعے بقول ان کے کروڑوں میں خریدنے کی کوشش کی گئی جب وہ باز نہ آئے تو اسے اور اس کی والدہ کو ایجنسیوں سے پریشان کروایا گیا۔ اسے اس وقت کے وزیر اطلاعات نے نوکری سے نکلوا دیا اور آج تک نہ کوئی چینل اسے نوکری دے سکا اور نہ موجودہ حکومت اسے نوکری واپس دلواسکی ۔اس ”گستاخی“ کی بنیاد پر عثمان بزدار کو کہہ کر اس کے علاقے میں اس کے بھائی کے خلاف جھوٹا کیس بنوا کر گرفتار کروایا گیا ۔

آخرمیں یہ نکتہ ذہن نشین کرنا چاہئے کہ بعض لوگ اب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں اور عمران خان کا توشہ خانہ کے حوالے سے معاملہ ایک جیسا ہے ،جو سراسر غلط ہے کیونکہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ دیگر حکمرانوں نے غیراخلاقی کام کیا لیکن غیرقانونی کام اس لئے نہیں کیا کیونکہ اس وقت کے قانون کے حساب سے ہر تحفے کی بیس فی صد قیمت ادا کی لیکن عمران خان نے توشہ خانہ کے حوالے سے قانون کی کئی خلاف ورزیاں کیں۔ پہلی یہ کہ ان کے دور میں بیس کی بجائے پچاس فی صد قیمت ادا کرنے کا قانون بنا تھا لیکن انہوں نے اور ان کے خاص بندوں نے بیس فی صد کے حساب سے ادائیگی کی ۔ 

دوسری یہ کہ قانون کی رو سے تحفے کی قیمت کا تخمینہ ایک کمیٹی کو لگانا تھا لیکن انہوں نے کبھی اس کمیٹی سے تخمینہ نہیں لگوایا اور خود ہی قیمت کا تعین کرتے رہے ۔تیسری یہ کہ ماضی کے حکمرانوں نے تحفے لے کر اپنے پاس رکھے۔ یعنی Retainکئے اوران کے آگے فروخت کرنے کے ثبوت سامنے نہیں آئے لیکن عمران خان نےیہ ری ٹین کرنے کی بجائے آگے اور وہ بھی بیرون ملک فروخت کئے۔ پانچویں خلاف ورزی یہ ہوئی کہ تحفے کی بیس فی صد رقم عمران خان کے اکائونٹ سے خزانے میں جمع نہیں ہوئی لیکن اس کی فروخت سے ملنے والی رقم ان کے اکائونٹ میں جمع ہوئی جسے انہوں نے الیکشن کمیشن کے پاس اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ 

چھٹی یہ کہ انہوں نے یہ تحائف فروخت کیلئےپرائیویٹ جہازسے بیرون ملک بھجوائے اور یوں کسٹم رولز کی خلاف ورزی ہوئی اور ساتویں یہ کہ فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بینکنگ چینل سے دبئی سے آنے کی بجائے اسی جہاز میں اسلام آباد آئی اور ان کے اکائونٹ میں جمع ہوئی جو منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے ۔ یوں اخلاقی حوالوں سے یکساں ہونے کے باوجود قانونی حوالوں سے عمران خان کا معاملہ دیگر سے مختلف ہے ۔ اسی لئے وہ عدالت میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان پرفرد جرم عائد ہو کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کیس میں ان کا بچنا ناممکن ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔