بلاگ
Time 19 مارچ ، 2023

عدالتیں، سیاستدانوں کو موقع دے رہی ہیں

آج اتوار ہے۔ بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر ملنے ڈھیروں باتیں کرنے کا دن۔ ملک میںجیسی کشیدگی ہے۔ بے یقینی ہے۔ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر وہ جو بھیانک مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں بے شُمار سوالات جنم لے رہے ہیں۔ وہ آپ سے ان کے جواب جاننا چاہیں گے۔ اس لئےصبح سے ہی تیاری کرلیں۔ ٹالنے کی کوشش نہیں کیجئے گا۔ کیونکہ وہ آپ سے زیادہ اطلاعات رکھتے ہیں ۔وہ ان کی تصدیق کرنا چاہیں گے۔

 یہ تو غنیمت ہے کہ انہیں آپ کی گفتگو پر اب بھی اعتبار ہے۔ ورنہ بڑے بڑے عہدیدار اپنا اعتبار کھوچکے ہیں۔ مملکت کا سربراہ اور سپریم کمانڈر متنازع ہے۔ انتظامی سربراہ بھی متنازع ہے۔ وفاقی وزراء کا کسی دَور میں ایک دبدبہ ہوتا تھا۔

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

کل کیا ہوگا۔ کسی کو خبر نہیں ۔ ہم ایک ایک دن بلکہ ایک ایک گھنٹہ جی رہے ہیں۔ ملک کا وزیر داخلہ کہہ رہا ہے ’’آج عمران خان کو ہر صورت گرفتار کرلیں گے۔‘‘ لاہور لندن تک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ مگر یہ ہوتا نہیں۔ پچاس ساٹھ اور حتیٰ کہ 70کی دہائی میں بھی وزیر داخلہ کی ایک ہیبت ہوتی تھی۔ ملاحظہ کیجئے۔

 مشتاق احمد گورمانی، اسکندر مرزا، اے کے فضل الحق، خان حبیب اللہ خان مروت، ایڈمرل اے آر خان، سردار عبدالرشید خان، ذوالفقار علی بھٹو، عبدالقیوم خان، محمود ہارون، اسلم خٹک، اعتزاز احسن، نصیر اللہ بابر، معین الدین حیدر، فیصل صالح حیات، آفتاب شیر پاؤ، چوہدری نثار علی خان۔ تاریخ کے اوراق میں دیکھئے۔ ان کی گرفت کتنی مضبوط تھی۔ 

ان کا کہا پتھر کی لکیر ہوتا تھا۔ اسمگلر۔ قانون شکن ان سے تھر تھر کانپتے تھے۔ اعلیٰ عسکری عہدیداروں سے ان کا قریبی رابطہ ہوتا تھا۔ بہت زیادہ ضروری ہوتا تھا تو وزیر داخلہ لب کشائی کرتا تھا۔ پھر ریاست کی مشینری اس کے الفاظ کو عملی جامہ پہناتی تھی۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارُالحکومت میں پولیس رینجرز جس طرح تمام لاؤ لشکر کے باوجود اپنا ہدف حاصل نہیں کرپارہے۔ اشرافیہ کی ایک بستی میں جس طرح طاقت کا استعمال دونوں طرف سے ہورہا ہے۔ حکومت کے پاس آنسو گیس کا تازہ ترین اسٹاک بھی ہے اور استعمال کی مدت گزر جانے والے گولے بھی۔ پانی کی توپیں۔ وہ بے دریغ برتے جارہے ہیں۔ 

دوسری طرف کارکنوں کی طاقت ہے۔ جاں نثار ہیں۔ ایک جان بھی جاچکی ہے۔ پولیس والے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ کارکن بھی۔ دونوں پاکستانی ہیں ۔پاکستان کا آسمان تو 75 سال سے دیکھ رہا ہے کہ پاکستانی پاکستانی پر لاٹھی چارج کرتا ہے۔ گولیاں چلاتا ہے۔ مشرقی پاکستان۔ مغربی پاکستان میں پاکستانی پاکستانی کو ہلاک کرتا آرہا ہے۔

ریاست کی طاقت کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ریاست نے اپنی طاقت زیادہ تر وقت کی حکومت کے مخالفین کے خلاف استعمال کی ہے۔ ریاست کی جڑیں کاٹنے والوں کے خلاف ریاست کی قوت نہیں برتی گئی۔ ریاست کے چاروں ستون اپنی بے حسی کے باعث متنازع ہوچکے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے۔ فوج کی سیاسی امور میں مداخلت، انتظامیہ کی سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں۔ پارلیمنٹ (مقننہ) کا اہم اور حساس معاملات میں غیر فعال ہوجانا۔ میڈیا کا حکومتی ترجمان بن جانا۔ ریاست کے تقدس کا محافظ نہ ہونا۔ ان روایات نے ریاست کا تقدس ختم کردیا ہے۔ دانشور، علماء، مفکرین ، ماہرین، بار بار زور دیتے رہے ہیں کہ ریاست کے ستون ایک ایسا دائرہ کار طے کرلیں۔ جہاں سب کا اتفاق ہو۔ اپنے سیاسی اختلافات ترک کرکے ان حساس امور پر ایک رائے اختیار کریں۔ اس سے ریاست کا اعتبار اور اختیار قائم ہوتا ہے۔ قانون کا نفاذ طاقت ور اور کمزور کے لئے یکساں ہونا چاہئے۔

پولیس کی بربریت سب دیکھتے آرہے ہیں۔ پولیس کی سیاسی تقرریاں۔ تبادلے پولیس کا اعتبار ختم کرتے رہے ہیں۔

واہگہ سے گوادر تک ہر چہرہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ کیا ہوگا۔ کیا ہونے والا ہے۔ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ معیشت بے لگام گھوڑے اور بد مست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی پر قابو نہ پانے کے باعث حکومت کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔

ایسے حالات میں ملک میں اتحاد اوریکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور آئندہ بھی کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔

ملک کی سلامتی۔ معاشرے میں استحکام صرف دو پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں کو یہ بخوبی احساس بھی ہے۔ لیکن دونوں تدبر۔ بصیرت۔ تحمل سے فیصلے نہیں کررہے ۔ ایک ہیں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف۔ جن کی طاقت پارلیمنٹ ہے۔ مگر اس کا کوئی ایسا اجلاس نہیں ہورہا ہے۔ جہاں سنجیدگی سے ملکی صورت حال پر دیانتداری سے بات ہو۔ دوسرے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خان۔ زیادہ ذمہ داری وزیر اعظم کی ہے۔ جو ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔جو قائد ایوان ہیں۔ جن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں اکثریت ہے۔ جن کے وزیروں مشیروں خصوصی معاونین کی تعداد 75سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اب تک اس حکومت نے اپوزیشن کے خلاف صرف طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا ہے۔ کوئی سیاسی حکمت عملی مرتب نہیں کی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ روپے کی قدر گر رہی ہے۔ افراطِ زر ریکارڈ شرح پر ہے۔

جارحانہ کارروائیوں کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا کہ اپوزیشن مقبول ہورہی ہے۔ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں نے ملک میں استحکام پیدا نہیں کیا۔تاریخ کے اوراق گواہی دے رہے ہیں کہ جب مسائل تشدد اور دھونس سے حل نہیں ہوئے تو پیار اور یگانگت سے کام لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب ہمت کریں۔

انتہائی کارروائیاں کرکے دیکھ لیں۔ پولیس کی سختیاں ہوچکیں۔ اب خیر سگالی اور مفاہمت سے کام لے کر دیکھیں۔ عدالتیں بجا طور پر کہہ رہی ہیں کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر اپنے تنازعات طے کریں۔سیاسی قوتیں آپس میں بیٹھ کر سیاست کو ،جمہوریت کو مستحکم کریں۔ الیکشن ہونے دیں۔ نیا مینڈیٹ لینے کا وقت آچکا ہے۔ اس کے لئے ماحول سازگار کرنا ریاست کے ہر ادارے کا فرض ہے۔

موجودہ وزیر اعظم اور سابق وزیر اعظم تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔

بس ایک لغزش پا پر ہے فیصلہ ہونا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔