03 اپریل ، 2023
الیکشن کیس کا یکم مارچ کا فیصلہ چارتین کا تھا یا دو تین کا ؟ سپریم کورٹ میں اس نکتے پر دلچسپ بحث ہوئی۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا تھا 9 رکنی بینچ کے 4 ججوں نے درخواستیں مسترد کیں اورتفصیلی فیصلے دیے۔
اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ جسٹس اطہر نے درخواستوں کو مسترد نہیں کیا اور جسٹس یحییٰ نے ان سے اتفاق کیا۔
چیف جسٹس اٹارنی جنرل سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا آپ چار ججز کے فیصلے کو ہی جوڈیشل آرڈر تسلیم کرتے ہیں؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 5 رکنی بینچ کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ کیا اٹارنی جنرل یہ کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے نیا بینچ نہیں بنایا، پچھلا بینچ چلا آرہا ہے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اکثریتی ججز ازخودنوٹس مسترد کرچکے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ جن ججز نےکیس سناہی نہیں ان کا فیصلہ ملا کر اکثریتی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر چار ججزکا فیصلہ ہی تسلیم کرلیں تب بھی بینچ تشکیل دینےکا اختیار کیا چیف جسٹس کےسوا کسی اورکو ہے؟ تمام ججز اتفاق کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کو بینچ بنانےکا اختیار ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ 9 رکنی بینچ نےکہا کہ چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ اگر چار تین کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائےگا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔
۔۔۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ تفصیلی اختلافی نوٹس میں بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نکتہ ہی شامل نہیں ہے، بحث کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر پھرسے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ جب 4 ججز کا فیصلہ آگیا تو معاملہ ہی ختم ہوگیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آپ بیٹھ جائیں اور ہمیں اعدادوشمارنہ بتائیں۔