06 اپریل ، 2023
پیدائش کی ترتیب (یعنی گھر میں بڑے، منجھلے یا چھوٹے بچے) کو کامیابی، خوشحالی، ملازمت اور دیگر چیزوں کی پیشگوئی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مگر کیا واقعی پیدائش کی ترتیب زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے؟
20 ویں صدی میں ایک محقق الفریڈ ایڈلر نے پیدائش کی ترتیب کی تھیوری کو پیش کیا تھا۔
اس تھیوری میں دعویٰ کیا گیا کہ پیدائش کی ترتیب یعنی گھر میں بڑے، منجھلے یا چھوٹے ہونے پر بچوں کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
الفریڈ ایڈلر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ خاندان، برادری اور سماجی پہلو بھی کسی بچے کی شخصیت کو بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اب متعدد ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ بچوں کی پیدائش کی ترتیب ان کی شخصیت بننے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور انہوں نے یہ چند پہلو بتائے ہیں۔
اگر آپ گھر کے سب سے بڑے بچے ہیں تو آپ وہ ہیں جن کو ایک مخصوص وقت تک والدین کی پوری توجہ حاصل تھی کیونکہ آپ ہی کی بدولت وہ والدین بنے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی اولاد والدین کے بہت عزیز ہوتی ہے اور وہ اس کی پرورش کے تمام پہلوؤں پر بھرپور توجہ مرکوز کرتے ہیں اور وہ بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔
یعنی والدین کی پوری توجہ پہلوٹھی کے بچوں کو حاصل ہوتی ہے تو انہیں زیادہ سختی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے تاکہ دیگر بچوں کو سکھانا آسان ہو سکے۔
تحقیقی رپورٹس میں یہ دریافت ہوا ہے کہ اگر آپ گھر کے سب سے بڑے بچے ہیں تو آپ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
بڑے اور سب سے چھوٹے کے درمیان موجود بچے عموماً زیادہ مفاہمت پسند ہوتے ہیں اور اپنے بہنوں اور بھائیوں کے درمیان جھگڑے کو سلجھانا پسند کرتے ہیں۔
درحقیقت منجھلے بچے ایسے ہوتے ہیں جو ہر عمر کے افراد میں بہت آسانی سے گھل مل جاتے ہیں۔
تاہم منجھلے بچے عموماً بڑے بھائیوں یا بہنوں سے مقابلہ کرنا پسند کرتے ہیں جیسے تعلیمی میدان میں انہیں پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق گھر کے سب سے چھوٹے بچے 2 طرح کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ ہوتے ہیں جو زندگی میں کامیابی کے لیے ہر چیز میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے خاندان کے لیے ہر مشکل کا حل ثابت ہوتے ہیں۔
دوسری قسم ایسے بچوں کی ہوتی ہے جو ہر کام کو ٹالتے ہیں جس کی وجہ خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔
چھوٹے بچوں کو دیگر بہنوں یا بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے کیونکہ ان کے آنے تک والدین اپنے اصولوں کو کافی نرم کر دیتے ہیں۔
چھوٹے بچے عموماً کافی تخلیقی ہوتے ہیں جبکہ فطرتاً باغی اور باہر گھومنے پھرنے کے شوقین بھی ہوتے ہیں۔
اگر آپ گھر کے واحد بچے ہیں تو بچپن سے ہی اردگرد صرف بالغ افراد کو ہی دیکھا ہوگا۔
ایسے بچے عموماً اپنے والدین یا دیگر بالغ افراد کے رویوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین ان کی بہت زیادہ حفاظت کرتے ہیں جس کے باعث وہ اپنے والدین پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں۔
ایسے بچے ذہین اور تخلیقی ذہن کے حامل ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے راستے خود طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچھ تھیوریز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گھر کے سب سے بڑے بچے اپنے بہوں یا بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں یا ان کا آئی کیو لیول زیادہ ہوتا ہے۔
مگر حالیہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ دیگر بہنوں یا بھائیوں کے مقابلے میں گھر کے سب سے بڑے بچے کا آئی کیو لیول محض ایک پوائنٹ زیادہ ہوتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں ثابت ہوا کہ بڑے بچے کو زندگی کے ابتدائی برسوں میں بالغ افراد کے اردگرد رہنے سے فائدہ ہوتا ہے۔
اسی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے بچے عموماً اپنے بہنوں اور بھائیوں کے لیے قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں جس سے بھی ان کی ذہانت بہتر ہوتی ہے۔
کچھ افراد کا ماننا ہے کہ پیدائش کی ترتیب صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر آپ گھر میں سب سے بڑے ہیں تو پیدائشی وزن دیگر بہنوں یا بھائیوں کے مقابلے میں سب سے کم ہو سکتا ہے۔
اسی طرح منجھلے یا چھوٹے بچوں میں ایسے حادثات سے اسپتال پہچنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جن کو روکنا ممکن ہوتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں اس خطرے کو کسی بڑے خاندان میں والدین کی توجہ میں کمی سے جوڑا گیا ہے۔
محققین نے دریافت کیا ہے کہ عموماً بڑے، منجھلے اور چھوٹے بچوں کی صحت پر اثرات کا تعین اس بات پر ہوتا ہے کہ والدین کیسے ان کے ساتھ وقت گزارتے اور وسائل خرچ کرتے ہیں۔
پیدائش کی ترتیب کافی پیچیدہ موضوع ہے اور ہر خاندان میں اس کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے چند عناصر اہم ثابت ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
عمر کا فرق : ماہرین کے مطابق اگر بہنوں یا بھائیوں کی عمر میں 5 سال یا اس سے زیادہ فرق ہو تو تعلق کافی مختلف ہو سکتا ہے۔
جڑواں بچے : بیشتر جڑواں بچوں کو والدین کی خصوصی توجہ حاصل ہوتی ہے تو ان پر بیشتر اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اعتماد : کسی بچے کی اپنے بارے میں رائے اس کے رویے اور خیالات کا تعین کرتی ہے، اگرچہ پیدائش کی ترتیب شخصیت کی تشکیل میں مدد فراہم کر سکتی ہے مگر یہ واحد عنصر نہیں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔