بلاگ
Time 09 اپریل ، 2023

چیٹ جی پی ٹی اور ہمارا بیانیہ

میلان میں کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد نسبتا زیادہ نظرآئی یہاں تک کہ بورڈنگ کیلئے قطاروں میں کھڑے بعض مرد و زن بھی مطالعہ میں غرق تھے— فوٹو: جیو نیوز
میلان میں کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد نسبتا زیادہ نظرآئی یہاں تک کہ بورڈنگ کیلئے قطاروں میں کھڑے بعض مرد و زن بھی مطالعہ میں غرق تھے— فوٹو: جیو نیوز

شہروں شہروں جانا ہو یا ملکوں ملکوں پھرنا ہو، طویل سفر کاٹنے کیلئے عام طورپر پاکستان میں لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، میوزک سنتے ہیں، فلمیں اور موبائل فون پر ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کتنے فیصد لوگ پڑھتے ہیں؟

حال ہی میں مجھے امریکا جا کر سینیٹر کوری بُوکر کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا، کراچی ائیرپورٹ پر ہر شخص اپنے طیارے میں سوار ہونے کا وقت موبائل فون پرعزیزوں سے بات کرکے، ویڈیو دیکھ کر، کچھ کھاتے پیتے یا اونگھتے ہوئے گزارتا نظر آیا۔

پرواز قطر اترتے ہی منظر بدل گیا۔ دوحہ ائیرپورٹ پر کچھ لوگ کتابیں پڑھتے بھی نظرآئے۔ پرواز چونکہ اٹلی کے راستے واشنگٹن ڈی سی جانا تھی، اس لیے اگلا مختصر قیام میلان میں ہوا۔ یہاں کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد نسبتا زیادہ نظرآئی یہاں تک کہ بورڈنگ کیلئے قطاروں میں کھڑے بعض مرد و زن بھی مطالعہ میں غرق تھے۔ دوران پرواز بھی طویل وقت زیادہ تر لوگوں نے سو کر، من پسند فلمیں دیکھ کر  یا گانے سن کر گزارا۔ گنتی کے چند تھے جنہوں نے اس وقت کو بھی کتابیں پڑھنے میں صرف کیا۔

واشنگٹن ائیرپورٹ پربھی کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ امیگریشن کاؤنٹر کی لمبی قطاروں میں کھڑے کئی افراد اپنی مادری زبان کا مشہور ناول یا انگریزی میں شائع مختلف ممالک کی کتابیں پڑھ کر وقت کا بہتر استعمال کرتے رہے۔

واشنگٹن ائیرپورٹ پربھی امیگریشن  کی لمبی قطاروں میں کھڑے کئی افراد کتابیں پڑھ کر وقت کا بہتر استعمال کرتے رہے— فوٹو: جیو نیوز
واشنگٹن ائیرپورٹ پربھی امیگریشن  کی لمبی قطاروں میں کھڑے کئی افراد کتابیں پڑھ کر وقت کا بہتر استعمال کرتے رہے— فوٹو: جیو نیوز

دوران سفر کتابیں پڑھنے والے افراد کی ایسی ہی تعداد آپ کو لندن اور پیرس کی ٹرینوں اور بسوں میں بھی نظر آئے گی۔ چند افراد ٹیبلٹ پر کتاب پڑھتے بھی ملیں گے مگر کئی ہیں جنہیں اوراق سے بھری کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا جنون اب بھی برقرارہے۔

چند ہی ماہ پہلے مجھے ٹرین کے ذریعے کراچی سے لاہور سفر کا بھی موقع ملا، اپنے کپمارٹمنٹ میں تمام افراد کو آسمان اور زمین کی قلابیں ملاتے پایا۔ سیاست پر ایسی گہری نظر کہ الامان الحفیظ۔ خود سیاستدان دنگ رہ جائیں گے کہ یہ کس بلا کا سامنا ہوا ہے۔ اس وقت نیند کی قدر کا احساس ہوا کہ خدا نے اگر لوگوں پر دن کے کسی پہر نیند طاری نہ کی ہوتی تو شاید ان جیسے لوگوں کے منہ مسلسل کھانے اور بولنے کے سبب بلا روک ٹوک چلتے ہی رہتے۔

دوران سفر کتابیں پڑھنے والے افراد کی ایسی ہی تعداد آپ کو لندن اور پیرس کی ٹرینوں اور بسوں میں بھی نظر آئے گی۔ چند افراد ٹیبلٹ پر کتاب پڑھتے بھی ملیں گے— فوٹو: جیو نیوز
دوران سفر کتابیں پڑھنے والے افراد کی ایسی ہی تعداد آپ کو لندن اور پیرس کی ٹرینوں اور بسوں میں بھی نظر آئے گی۔ چند افراد ٹیبلٹ پر کتاب پڑھتے بھی ملیں گے— فوٹو: جیو نیوز

ان عالم فاضل افراد کو حیرت تھی کہ کمپارٹمنٹ میں ایک بالکل خاموش شخص سارے راستے اپنے موبائل کو گھورتا رہا ہے۔ ان میں سے ایک سے رہا نہ گیا اور پوچھا آپ کے موبائل میں ایسا کیا ہے جو سارا سفر ختم ہوگیا اور آپ وہ دیکھتے رہے۔

میں نے بتایا کہ پاکستان کے ایک دانش ور جی ایم سید گزرے ہیں، ان کی کتاب ’سندھو دیش‘ پر ملک میں پابندی لگادی گئی تھی، اسکا انٹرنیٹ ورژن میسر ہے وہ پڑھ رہا ہوں۔ یعنی وہ بیانیہ جو ہم جاننا نہیں چاہتے۔

پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان ہونا یا کم ہونا اپنی جگہ، چیٹ جی پی ٹی کے دور میں جب ایک لفظ ٹائپ کریں اور پوری کہانی لکھی ہوئی مل جائے تو ایسے میں بھی لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور مغربی قارئین انہیں خرید کر دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں۔

ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ مغرب کو فحاشی، عریانی اور عیاشی کا اڈہ تصور کرلیا جاتا ہے۔ مسلم اکثریتی آبادی کے حامل ممالک اور پسماندہ دنیا کے وسائل ہڑپ کرنے والا آسیب مان لیا جاتا ہے مگر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ آخر مغرب نے یہ طاقت حاصل کیسے کی اور اسے اپنا مؤثر ہتھیار بنایا کیسے؟

آسان لفظوں میں اگر دنیا کو تقسیم کیا جائے تو اس گلوبل ورلڈ میں دو قسم کے لوگ بستے ہیں۔ ایک ’پروڈیوسر‘ ہیں یعنی سوئی سے لے کر خلائی جہاز تک تیار کررہے ہیں اور دوسرے ’کنزیومر‘ یعنی جو دن رات ملازمت کرکے رقم اکھٹی کرتے ہیں تاکہ ’پروڈیوسرز‘ کی تیار کردہ نئی سے نئی اشیاء خرید سکیں۔

چیٹ جی پی ٹی کے دور میں جب ایک لفظ ٹائپ کریں اور پوری کہانی لکھی ہوئی مل جائے تو ایسے میں بھی لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور مغربی قارئین انہیں خرید کر دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں— فوٹو: فائل
چیٹ جی پی ٹی کے دور میں جب ایک لفظ ٹائپ کریں اور پوری کہانی لکھی ہوئی مل جائے تو ایسے میں بھی لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور مغربی قارئین انہیں خرید کر دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں— فوٹو: فائل

ان ہی ’پروڈیوسرز‘ نے ہمارے لیے چیٹ جی پی ٹی تیار کی ہے۔ تا کہ ہم پڑھنے کو تو چھوڑیں لکھنے کے مرحلے سے بھی غافل ہوجائیں۔ آج سیکنڈری اسکولوں کے بچے اپنا ہوم ورک چیٹ جی پی ٹی سے کاپی کرکے ٹیچرز کو دکھاتے ہیں اور خود کو افلاطون سمجھتے ہیں۔

یہی روش رہی تو ہم اپنا بیانیہ لکھنے سے بھی عاری ہوجائیں گے۔ اس وقت چیٹ جی پی ٹی یا اس سے بھی کہیں آگے کی چیز ہمیں گلوبل بیانیہ دے گی۔ یہ اس ایپ پر منحصر ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ پرموجود کیا مواد چن کر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے اور کسے غیر مناسب بیانیہ سمجھ کر نظر انداز کردیتی ہے۔

پڑھنے اور لکھنے کی روش نہ اپنائی تو ہمارا بیانیہ ہمارے ذہن ہی میں دفن ہو جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔