بلاگ
Time 09 اپریل ، 2023

13 جماعتوں کے 12 مہینے

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں اور بہوؤں دامادوں سے ملنے کا دن۔ افطاری پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پوتے یا نواسے کی زندگی کی پہلی روزہ کشائی بھی دیکھتے ہیں۔ ماں اور باپ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔آج ٹھیک ایک سال ہورہا ہے۔ اسلام آباد میں حکمراں بدلے۔ پہلے والوں کو جولائے تھے۔ وہی پرانوں کو نئے کرکے لائے۔ 13جماعتیں اکٹھی کیں۔ اور حکومت ان کے سپرد کی۔اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں۔

سر میں شوق کا سودا دیکھا

دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا

 جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا

کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

 پلٹن اور رسالے دیکھے

 گورے دیکھے کالے دیکھے

 سنگینیں اور بھالے دیکھے

بینڈ بجانے والے دیکھے

 اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا

 بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا

منہ کو اگر چہ لٹکا دیکھا

دل دربار سے اٹکا دیکھا

 ایک کا حصّہ من و سلویٰ

 ایک کا حصّہ تھوڑا حلوا

 ایک کا حصّہ بھیڑ اور بلوا

 میرا حصّہ دور کا جلوہ

 اوج بخت ملاقی ان کا

چرخ ہفت طباقی ان کا

 محفل ان کی ساقی ان کا

 آنکھیں میری باقی ان کا

پاکستان کی تاریخ کا ایک اور بھڑکتا۔ کڑکتا۔سال گزر گیا۔ اس ایک سال میں کیا نہیں ہوا۔ یہ 1969-1977-1999- 1958 کے مارشل لا برسوں پر بھی سبقت لے گیا۔ رات کے پچھلے پہر گھروں کی دیواریں بھی پھلانگی گئیں۔ باپ نہیں ملا تو بیٹے کو اٹھالیا۔ یہ عقوبت خانوں کو آباد کرنے کا سال بھی تھا۔ ایک 10اپریل 1986 میں آئی تھی جب دخترِ مشرق کے استقبال کیلئے لاہور کی سڑکوں پر پورا پاکستان امڈ آیا تھا۔ ایک 10اپریل 2022میں آئی جب پورے پاکستان میں عوام از خود سڑکوں پر آگئے تھے کہ حکومت ان کی مرضی کے بغیر کیسے رخصت کردی گئی۔ اس روز بھی عدالت عظمیٰ تحریک عدم اعتماد کے آئینی اصول کے تحفظ کیلئے آدھی رات کو لگی تھی۔ یہی سارے جج تھے، جو آج ناپسندیدہ ہیں۔ اس روز وہ آئین کے محافظ تھے۔ اب اپریل 2023میں وہ انتخابات 90 دن میں کرانے کے آئینی اصول کا تحفظ کررہے ہیں تو ان کے فیصلے اقلیتی ہوگئے ہیں۔

56 سال پہلے 1967 میں حکمراںطبقوں کے خلاف قائم ہونے والی پارٹی نے اپنا نصب العین بتایا تھا،’’عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں۔‘‘ اس سال کے آغاز میں عوام نے عملاً اپنے آپ کو طاقت کا سر چشمہ ثابت کیا ہے۔ مگر ایک اور پارٹی کے لئے جو اس وقت حکمران طبقوں کو للکار رہی ہے۔ ان بارہ مہینوں۔ 9اپریل 2022۔ 9اپریل 2023 میںکیا نہیں ہوا۔ انتہائی ضروری اشیا کی مہنگائی میں 47فیصد اضافہ ہوا۔ واہگہ سے گوادر تک آہ و بکا ہے۔ قیمتیں اور اوپر ہی جارہی ہیں۔ بانیٔ پاکستان کی تصویر والی کرنسی۔ امریکی حکمرانوں کی تصویر والی کرنسی کے سامنے زیر ہوتی جارہی ہے۔ 60فیصد نوجوان آبادی والے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے برسوں کا تجربہ رکھنے والے وزیر خزانہ کچھ نہیں کرپارہے۔

طاقت کے مراکز بدل رہے ہیں۔ واشنگٹن بیجنگ کے مقابلے میں بہت کمزور ہوگیا ہے۔ اب سپر طاقت چین ہے۔ مگر چھوٹے ملکوں کو یرغمال بنانے کیلئے نہیں بلکہ انہیں مزید طاقت دینے کیلئے۔ چین نے ہمارے دو دوستوں سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات قائم کروائے ہیں۔ اس پر پاکستان میں جس خوشی کا اظہارہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوسکا۔ یہ تینوں ہمارے کرم فرما ہیں۔ سعودی عرب ہمیشہ ہمارا خیر خواہ رہا ہے۔ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ 1965اور 1971کی جنگ میں ہمارے طیاروں کی حفاظت کی تھی۔

تیرہ جماعتیں اکٹھی ہیں۔بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک صفحے پرہے۔ لیکن ان بارہ مہینوں میں یہ عوام کو کوئی راحت نہیں پہنچاسکے۔ مفت آٹا بھی صحیح طریقے سے تقسیم نہیں کرسکے۔ 16جانیں چلی گئی ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں راشن کی تقسیم سیلانی۔ اخوت۔ الخدمت اور بحریہ ٹائون والے کررہے ہیں۔

حرف و دانش، تدبر، بصیرت سب دور کھڑے نظارہ کررہے ہیں۔ ملکی سلامتی کا مقدس نعرہ بھی نتیجہ خیز نہیں رہا۔ مخالفین پر ساری بلڈوزنگ بے نتیجہ ہے بلکہ ان کی مقبولیت میں ہر لمحہ اضافہ ہورہا ہے۔

تاریخ کے ایک طالب علم اور پاکستان کی تاریخ کے عینی شاہد ہونے کے ناطے مجھے یہ تشویش ہورہی ہے کہ 13میں سے ایک پارٹی 70کی دہائی سے اس ملک پر حکومت کرتی آرہی ہے۔ ایک اور پارٹی 80 کی دہائی سے حکمرانی کررہی ہے۔ چاروں صوبوں اور دو اکائیوں کی نفسیات جاننے کے لئے چار عشرے تھوڑے تو نہیں ہیں۔ دونوں پارٹیاں ملک کے اداروں کی قربت اور دوریوں کے ذائقے بھی چکھ چکی ہیں۔ پھر بھی یہ دونوں بڑی اور ان کے ساتھ مختلف علاقوں کی گیارہ پارٹیاں، صرف 3½سال حکومت کرنے والی پارٹی کو اب تک میدان سےباہر کیوں نہیں کر پائیں۔ بہت تیزی سے نیب قوانین میں تبدیلی کرکے اپنے مقدمات ختم کروائے ہیں جو ان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے۔ یہ اقدام بھی سخت خطرے میں ہے۔ انتخابات جب بھی ہوں۔ ایک پارٹی کے جیتنے کے امکانات ہی ہیں۔ جس طرح اب پارلیمنٹ کی اقلیتی اکثریت کے ذریعے عدالتی فیصلے مسترد کئے جارہے ہیں۔ وہ پارٹی بر سر اقتدار آکران تمام قراردادوں کی جگہ نئی قراردادیں بلکہ آئین میں ترامیم لاسکے گی۔سوال یہ ہے کہ تیرہ جماعتوں اور ان کے سرپرستوں نے بارہ مہینوں میں کیا حاصل کیا ہے؟ پارلیمنٹ کو سپریم اور بالادست ثابت کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی ہے کیونکہ پارلیمنٹ نامکمل ہے۔ اس پارلیمنٹ نے کسی لمحے بالادست ہونے کا تاثر نہیں دیا۔

اصل افسوس یہ ہے کہ یہ بارہ مہینے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہر قسم کے بحران میں مبتلا کرگئے ہیں۔ عمودی، افقی، آئینی، اخلاقی، سیاسی،سماجی، اقتصادی بحران اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ 13 سیاسی جماعتی اتحاد عوام کو درپیش کسی بڑے مسئلے کو حل نہیں کرسکا ۔ اس طرح ان ساری سیاسی جماعتوں کی انتظامی اہلیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کا مستقبل مخدوش ہورہا ہے۔ تاریخ کا غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے والے اس سال کو اس اعتبار سے فیصلہ کن قرار دے رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام نے روایتی حکمران طبقوں سے طاقت چھین لی ہے۔ اب فیصلے بند کمروں والے نہیں چل رہے۔کھلے میدانوں والے چل رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔