29 اپریل ، 2023
فیصل قریشی کی پیشکش ’منی بیک گارنٹی‘ روایت سے مکمل طور پر ہٹ کر بنائی گئی ایک منفرد فلم ہے، یہ ایک لڑکا لڑکی کے پیار، یا کسی کے انتقام کی کہانی نہیں ہے بلکہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں موجود بد عنوانی کے بارے میں ایک اچھوتے انداز میں پیش کی گئی کہانی ہے۔
جس فلم میں فواد خان جیسے بڑے اداکار ہوں اسے توجہ حاصل کرنے کے لیے کسی خاص جتن کی ضرورت ویسے بھی نہیں پڑتی اور فلم میں فواد خان کے ساتھ ساتھ وسیم اکرم اور شنیرا اکرم بھی ہیں۔
غرض یہ فلم دو درجن سے زیادہ فلمی ستاروں کا جھرمٹ ہے جو گاہے بہ گاہے جھلملاتا رہتا ہے، اس فلم میں شامل دیگر اداکاروں میں میکال ذوالفقار، گوہر رشید، کرن ملک، مانی، جان ریمبو، شایان خان، شفاعت علی اور مرحوم احمد بلال کے علاوہ جاوید شیخ ، حنا دل پذیر اور عدنان جعفر نے بھی دلچسپ کردار ادا کیے ہیں۔
منی بیک گارنٹی ایک فرضی ملک میں موجود ایک بہت بڑے بینک کی کہانی ہے جس میں اس ملک کے مختلف بڑے سیاست دانوں کا پیسہ رکھا ہوا ہے اور اس بینک کے صدر وسیم اکرم ہیں اور اس کے منیجر فواد خان (بخش) ہیں اور فواد کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد صدر کی کرسی چھین لینا ہے۔
دوسری جانب مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے چند افراد اس بینک کو لوٹنے کا پلان بناتے ہیں تاکہ وہ اپنے مالی حالات بہتر کرسکیں، یہ فلم اسی جدو جہد اور اسی سلسلے میں جاری کشمکش کے گرد گھومتی ہے مگر اس میں کہانی سنانے کا انداز سنجیدہ نہیں بلکہ طربیہ ہے، اور یہ طربیہ انداز اصل میں ایک گہرا سیاسی طنز جو اس معاشرے کے حالات پر صادق آتا ہے۔
فواد خان بینک منیجر کے روپ میں آپ کو کافی مختلف لگیں گے، کم از کم آپ نے ان کا ایسا روپ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا، فواد کا انداز ان کے اطوار کسی ہالی وڈ اسٹار مانند محسوس ہوئے، خاص کر شنیرا اکرام کے ساتھ ان کے سین اس لحاظ سے منفرد لگے کہ سامنے ایک غیر ملکی خاتون ہی تھیں۔
دوسری جانب مانی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، جی اے مہاجر کے روپ میں انہوں نے ایک ایسا لازوال کردار ادا کیا ہے جو کم از کم کوئی کراچی والا نہیں بھول سکتا، ان کی آمد پر بجنے والا احمد رشدی کا گانا تو ویسے ہی لازوال ہے، مانی کا کردار روایتی کراچی والے کے طور پر نظر آیا جبکہ جان ریمبو یا افضل خان بھی کرسچن بیل کے کردار میں خوب جمے البتہ مرحوم کا پنجابی کردار کچھ ادھورا سا تھا۔
اب اس فلم کی کچھ خامیوں کی بات کرتے ہیں، اس میں سب سے بڑے خامی یہ ہے کہ کرن ملک خوبصورت تو لگ رہی ہیں مگر وہ ایک بلوچ خاتون کا کردار ادا کرنے میں یکسر ناکام رہی ہیں۔
جہاں مانی کا کردار جی اے مہاجر اور جان ریمبو کا کردار کرسچن بیل دیکھنے والوں کو خود سے جوڑتا ہے، وہیں صنم بلوچ کا کردار توڑتا ہے، میکال ذوالفقار کا کردار بھی چند مقامات پر دلچسپ ہے مگر مجموعی طور پر کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔
تاہم یہاں شایان خان کی تعریف کرنا ضروری ہوگا جو الیاس کشمیری کے روپ میں اس بار بہت ہی بہتر دکھائی دیے، خاص کر اگر آپ نے ان کی فلم ’نا بینڈ نا باراتی‘ دیکھی ہے تو یہ واضع ہوجائے گا کہ وہ اداکاری اور انداز میں پہلے تہہ خانے میں تھے اور اب پہلی منزل کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔
وسیم اکرم سے اداکاری نہ ہوسکی لیکن ان کی شخصیت نے پردے پر رنگ بکھیرے، خاص کر آخر میں ان کا شنیرا کی ساتھ ایک ہلکا سا رومانوی سین اچھا لگا۔
شفاعت نے ٹرمپ کا کردار اچھا کیا لیکن اب وہ پرانا محسوس ہوا، کرونا کی وجہ سے یہ فلم دیر سے ریلیز ہوئی جس کا اثر اس کردار پر پڑا اور وہ لطف نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا۔
فلم میں گانوں کی کمی محسوس ہوئی، عائشہ عمر کا رقص کافی بہتر ہوسکتا تھا، اگر ان کی جگہ کسی بہتر رقاصہ کو لے لیا جاتا، بلا شبہ عائشہ عمر ایک بڑا نام ہیں لیکن یہاں ضرورت ایک بہترین اداکارہ سے زیادہ رقاصہ کی تھی۔
’منی بیک گارنٹی‘ کے کردار ہمارے ارد گرد موجود افراد جیسے ہیں، ان کی حرکتیں انوکھی نہیں ہیں بس واضع ہیں۔
یہ فلم اگر توجہ سے دیکھی جائے تو آپ کو کہیں کہیں اپنی کہانی محسوس ہوگی، ایک عام پاکستانی کی بے بسی اور یہ کہ وہ کتنا لاچار ہے۔
فیصل قریشی کی فلم میں اشارے وکنایے ہیں، یہ سیدھا حملہ نہیں کرتی بلکہ گہرے طنز کرتی ہے جس سے دیکھنے والے کہیں محظوظ ہوتے ہیں، یا کہیں کہیں سٹپٹا بھی جاتے ہیں۔
اس فلم میں دیکھنے والے کو بار بار اپنے جوتے اتارکر دوسرے کے جوتے میں اپنا پاؤں ڈالنا ہوگا تاکہ وہ درد محسوس کیا جاسکے۔
یاد رہے کہ بطور ہدایتکار یہ فیصل کی پہلی فلم ہے اور امید ہے کہ وہ دوسری فلم میں مزید نکھار لائیں گے۔