بلاگ
Time 29 اپریل ، 2023

29 سے 29 تک

میں نے اپنی اب تک کی زندگی کا ایک چوتھائی حصہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں گذارا ہے، اس دوران میں نے کسی ایک سندھی کے ساتھ نہیں گذارا (کبھی بھی ان کے ساتھ کسی ایک گھر میں نہیں رہا جتنا بھی وقت گذرا وہ پنجابیوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی)۔

میں نے اس دوران پنجابیوں کے ساتھ ایک اچھا وقت گذارا اور ان کے رہن سہن سے اور گفتگو سے آشنا ہوا، دور رہ کر ان کے بارے ہر ایک کی اپنی رائے ہوسکتی ہے میں  نے ان کو اس کے برعکس دیکھا، میرے پیش نظر یہ تھا کہ اتنا دور آنے کے بعد بھی اگر سندھیوں کے ساتھ دن رات گذارتا تو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے 29 اپریل 1986 کو راولپنڈی اسلام آباد ٹیلی ویژن سینٹر میں قائم نیشنل نیوز بیورو جو اس وقت چکلالہ میں واقع تھا، جوائن کیا اور کنٹرولر نیوز حبیب اللہ فاروقی کو اپنی جوائننگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹھیک ہے کل سے آجانا اور کام شروع کردینا۔ انہوں نے رسمی سی گفتگو کی پوچھا آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے کہا لاڑکانہ،  پھر بولے اچھا بھٹو کے گاؤں کے ہوں۔ جب تک غیر شادی شدہ تھا میرے دن رات ٹی وی کے سینیئر رپورٹر محمد رفیق گورایہ کے ساتھ ہی گذرے۔

فوٹو : راقم الحروف
فوٹو : راقم الحروف

نیوز روم میں ایک صاحب نے اگلے دن کہا کہ یہاں کیوں آئے ہو؟ کراچی میں جوائن کیوں نہیں کیا؟ میں نے برجستہ اس کو جواب دیا کہ یہ میرے بس میں نہیں تھا کہ کہاں جوائن کروں البتہ جہاں بھی جاتا میرے گھر کے قریب تو کوئی ٹی وی سینٹر نہیں، میرے نزدیک کراچی اور راولپنڈی کی ایک ہی حیثیت ہے ۔ اس نے پھر ایک جملہ بولا کہ سندھی تو اپنا گھر یا علاقے سے دور نوکری نہیں کرتے آپ یہاں؟ میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کو ایک منفرد سندھی نظر آوں گا، میں نے کہا کہ کبھی بھی اپنے تبادلے کی کوشش نہیں کروں گا۔

جتنا وقت ٹی وی کے نیوز روم میں گذارا ان آنکھوں نے کیا کچھ نہیں دیکھا وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی مانند چل رہا ہے۔ اپنی ملازمت کے دوران میں نے 1985 سے 1999 تک قائم رہنے والی جمہوری حکومتوں کی بساط لپٹتے ہوئے دیکھیں، جن وزرائے اعظم کو فارغ کیا گیا ان میں محمد خان جونیجو، محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے دو دو ادوار دیکھ چکا ہوں، اس دوران ان تینوں وزرائے اعظم کے ساتھ اندرون ملک سفر اور بعض دفعہ مجھے وزیر اعظم ہاؤس میں جانے کا اتفاق بھی ہوا۔

فوٹو : راقم الحروف
فوٹو : راقم الحروف

یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی بھی ٹی وی کا ملازم سوال کرتے ہوئے نظر نہیں آیا ہوگا، ان کو سوال کرنے کی ممانعت تھی، ہاں البتہ ان کی خواہش پر سوال کرائے جاتے تھے یا پھر یہی کام وہ اخبارات کے اپنے من پسند رپورٹرز سے سوال کراتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ہی وزیراعظم تھے جنہوں نے آخری وقت تک ایک ہی پرنسپل سیکرٹری پر اکتفا کیا۔ عثمان علی جی عیسانی جس کی شہرت کافی اچھی تھی وہ اس وزیر اعظم کی طرح کلین تھے ان کا کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ جس دن ان کی اسمبلی برخاست کی گئی اس دن کے بعد جنرل ضیاالحق، جو ملک میں مارشل لا کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئے، 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرانے سے پہلے اپنے لیے ایک ریفرنڈم کا اہتمام کیا اور بڑی بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے ۔

فوٹو : راقم الحروف
فوٹو : راقم الحروف

ان کے ریفرنڈم کی ملک گیر کوریج کا سہرا بھی اس وقت کے چیف رپورٹر کے سر ہے البتہ جونیجو کی اسمبلی جس دن برخاست کی گئی ان دنوں وہ چیف رپورٹر ضیاالحق کے مجوزہ چین کے دورے کی کوریج کے سلسلے میں شہر میں موجود نہیں تھے۔

جونیجو کے دورہ فلپائن میں صدر اکینو نے جو جام صحت تجویز کیا اس میں ضیا کی لمبی عمر کی بات کی گئی۔ اسمبلیوں کی برخاست کے بعد ضیا صاحب نے ایک دن بھی اسلام آباد سے باہر رات نہیں گذاری،کہیں بھی جاتے رات کو  واپس آجاتے تھے۔ ان کے طیارے کی حادثے کی اطلاعات نیوز روم میں تقریباً ساڑھے چار بجے تک آگئی تھی، ہم باخبر تھے، یہ اطلاع خالق سرگانہ کے ایک دوست ایس ایس پی نے ان تک پہنچائی تھی، اس بارے میں تفصیلی پھر کبھی لکھوں گا کیونکہ اس بارے میں ہر ایک نے اپنی اپنی طرف سے بہت کچھ لکھا ہے، خبر کس نے بنائی اور کس نے پڑھی۔ سرکاری طور پر اعلان کس نے پڑھا۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے کم وقت پرانے وزیراعظم ہاؤس میں قیام کیا بعد میں انہوں نے سندھ ہاؤس کو اپنا مسکن بنایا۔  صدر اسحاق خان سے حلف برداری کے بعد کیا کہا تھا جس پر قائم قام صدر نے ان کی خواہش یکدم پوری کردی تھی، محترمہ نے ان سے وی اے جعفری جو ان کے پرنسپل سیکرٹری تھے مانگا، محترمہ کبھی بھی مقامی میڈیا کو خاطر میں نہیں لاتی تھیں، ان کی پوری توجہ انٹرنیشنل میڈیا کی جانب ہوتی تھی۔ ان کی پہلی اسمبلی برخاست کی گئی تو اس دن کے اخبار میں سپر لیڈ میں اسمبلیوں کی برخاست کی خبر لگی ہوئی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایوان صدر سے جو کاغذ آیا اس میں اتنا تھا کہ صدر نے اسبملی کا اجلاس طلب کیا ہے اور وزیراعظم کے لیے جو بھی اکثریت حاصل کرے گا وہ اسی روز اپنے عہدے کا حلف لیں گے ۔ اس میں یہ بات مبہم تھی کہ ہوگی یا ہوگا۔

فوٹو : راقم الحروف
فوٹو : راقم الحروف

اس طرح میاں نواز شریف کے دوسرے دور میں جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد جو کچھ ہوا اس بارے میں کئی قصے کہانیاں منظر پر آئی ہیں، اس کہانی کا سرا بھی نیوز روم سے شروع ہوتا ہے۔ نیوز روم کا تمام اسٹاف اس طرح کی صورتحال پہلے بھی دیکھ چکا تھا اس لیے یہ ان کے لیے کوئی اچھنبے والی بات نہ تھی۔ نیوز روم کی کمانڈ اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز عبدالشکور طاہر کے ہاتھ میں تھی۔ جب کبھی بھی کوئی تاریخ لکھی جائے گی اس میں ہر ایک اپنے اپنے طور پر لکھے گا۔

غلام اسحاق خان نے دو اسمبلیوں کو 58 ٹو بی کے آرٹیکل کے تحت برخاست کیا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو بھی اسمبلی برخاست کی گئی وہ سورج غروب ہونے سے پہلے برخاست کی گئی اس پر کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ سوائے بھٹو اور بینظیر بھٹو کی دوسری دور کی اسمبلی رات کے پچھلے پہر میں ختم کی گئی۔

اپنی ملازمت کے دوران اس وقت آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت، پاکستان نیوی کے ایڈمرل فصیح بخاری ( جن کی خواہش تھی کہ انہیں چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جائے کیونکہ وہ سینیئر ترین سروسز چیف ہیں، میاں نواز شریف ان کی جگہ پہلے ہی قائم قام کے طور پر جنرل مشرف کو  یہ عہدہ تفویض کر چکے تھے) میاں نواز شریف نے انہیں کہا کہ آپ شام تک بتائیں ورنہ ہم کسی اور  کو نیوی کا چیف بنادیں گے۔ جنرل کرامت کے ساتھ نیول وار کالج میں سکیورٹی کمیٹی کی تجویز پر جو بات کی گئی تھی اس خبر کو اس وقت کے وزیراطلاعات سید مشاہد حسین نے ایڈٹ کیا تھا۔

جب بھی ملک میں انتخابات کرائے گئے اس میں معتوب حکومت کو کوریج کا کم وقت میسر تھا۔ ایک کے بڑے جلسے اور ایک کے کونے والے جلسے دکھائے جاتے تھے اس کا سہرا بیگم عابدہ حسین کو جاتا ہے۔ نگران وزیراعظم معین قریشی کے دور میں دو بڑی جماعتوں کو برابر کا وقت دیا گیا جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ متبادل دنوں میں ان جماعتوں کو پہلے دکھایا جائے اور یکساں کوریج دی جائے گی۔ اس پر ان جماعتوں کو اپنے اپنے نمائندے دینے کے لیے کہا گیا۔ مسلم لیگ کی جانب سے صدیق الفاروق اور پیپلز پارٹی کی جانب سے حسین حقانی نمائندگی کرتے تھے، وہ یہ کوریج دیکھنے کے بعد اس پر رضامندی کا اظہار کرتے تھے ۔ یہ بات بتانا ضروری ہے کہ محترمہ کو کراچی سینٹر سے چلنے والی کوریج پر کبھی بھی خوشی نہ تھی اب تمام کوریج نیشنل نیوز بیورو ہی میں ایڈٹ کی جاتی تھیں۔

مجھے اس دن دھچکا لگا جب ضیاالحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہمارے پاس ان کی کوئی ایسی ویڈیو نہ تھی جو دکھا سکیں اس بلیٹن میں، 14 اگست کو اسکاؤٹس کی ایک تقریب میں خطاب اور 14 اگست کی مرکزی تقریبات کی ویڈیو موجود تھی وہ دکھائی گئی، ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اس دن کے بعد نیوز بلیٹن وی ایچ ایس پر رکھنے کا اہتمام کیا گیا اور ساتھ ہی ان کی کوریج جس میں صدر اور وزیراعظم کی کوریج آرکائیو مقاصد کے محفوظ کیا جانے لگا۔

اپنی ملازمت کے دوران اسلام آباد کے علاوہ کہیں تبادلہ نہیں کرایا، مجھے کراچی میں جاری آپریشن کے دوران 1995 میں کراچی تبادلہ کیا گیا جہاں 40 دن گذارے ۔  پشاور ایک مرتبہ گیا جہاں طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت اور معاہدے کی کوریج، جو کنٹرولر رپورٹنگ ممتاز حمید راؤ کر رہے تھے، انہوں نے مجھے پشاور طلب کیا اور اس پر کرنٹ افیئرز کی رہنمائی کی ایک رپورٹ تیار کر کے ٹیلی کاسٹ کی گئی۔

واجپائی کے دورہ لاہور میں سینٹر پر کام کیا اور اس سینٹر  پر کراچی میں وی وی آئی پیز کی کوریج کے سلسلے میں آنا جانا رہتا تھا۔

ہمیں ایک مرتبہ وزیراعظم ہاؤس طلب کیا گیا اس دن میاں نواز شریف گلگلت میں ایک رات قیام کے بعد وہاں کی مصروفیات پر ہدایات دینی تھیں، مجھے بھی ڈائریکٹر نیوز  راؤ صاحب مرحوم اپنے ساتھ لے گئے، وہاں ہم نے وزیراعظم کے آنے سے پہلے تقریر سن لی اور  ذہن بنالیا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ تقریر دیکھنے کے دوران میاں صاحب نے آنکھوں کے اشارے سے میری رائے پوچھی میں نے سر جھکا لیا اور کہا کہ راؤ صاحب پیچھے بیٹھے ہیں، وہ آگے آئے اس پر اپنے تحفظات بیان کرنے لگے تو میں لقمہ دیا سر اگر آپ کی ایسی پالیسی ہے تو بہتر بصورت دیگر ہم اپنے نیوز کاسٹر سے یہ بات پڑھوائیں گے۔ اس دوران ڈی جی آئی ایس آئی بولے چلوادیں کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا سر کل کہیں کوئی لاش گری تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ صاحب آج ہیں کل نہیں ہونگے۔ ڈی جی کا اصرار تھا کہ چلوادیں، سر پالیسی ہے یا نہیں چلادیں اس کی تردید کردیں گے۔ میں کہا نہیں سر آپ کے منہ سے نکلی بات کی خود تردید کیسے کریں گے ؟ اب تک اصل بات نہیں بتائی اس کی تفصیل بھی جلد پیش کردیں گے۔

اس دوران ایوان صدر میں وفاقی حکومت کے وزیروں کی پیشیاں بھی دیکھیں، کوئی نواز شریف کو اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر دوبارہ پانچ سال کے لیے منتخب کرانے کی باتیں کرتے تھے، ان میں سب سے پہلے یہ بات شیخ رشید نے کی تھی، انہوں نے یہ بات 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب لال حویلی کے باہر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔

اسحاق خان اور وزیردفاع غوث علی شاہ کے درمیان ہونے والی بات جو منظر پر نہ آئی جس میں انہوں حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا، دو ماہ بعد اسحاق خان نے 58  ٹو بی کا استعمال کیا۔ یہ اسمبلی 26 مئی کو بحال ہوئی مگر  بابے کا غصہ کم نہ ہوا۔ میں نے بینظیر بھٹو کی یہ کوریج بھی خبرنامے میں ٹیلی کاسٹ کی جس میں محترمہ نے کہا تھا یہ ججوں کو دانہ ڈالتے ہیں، اگلے سینیٹ میں پوائنٹ آف آرڈر پر بحث چھڑ گئی ، اس وقت کے وفاقی وزیر رضا ربانی نے کہا کہ یہ صریحاً جھوٹ ہے بی بی نے ایسی کوئی بات نہیں کی اس پر چیئرمین وسیم سجاد نے کہا ربانی صاحب کیا بات کر رہے ہیں میں نے خود سنا اور دیکھا ہے رات کا خبرنامہ منگوالیں آپ بھی دیکھ لیں۔ پی ٹی وی اسٹاف کے ہاتھ کھول دیے جاتے تو شاید یہ ادارہ اتنا برا نہیں جتنا اس سے متعلق مختلف حلقوں میں تاثر قائم کیا گیا ہے۔ ہم نے کبھی کسی چیز کو روکنے یا بلیک آؤٹ کرنے کی دانستہ کوئی کوشش نہیں کی اس میں زیادہ تر وقت کے حکمرانوں کا ہاتھ رہا ہے، ہماری جانب سے کئی ایسی باتیں عوام کی خاطر کی گئیں مگر اس کو خندہ پیشانی سے قبول نہیں کیا گیا اس کی مثال مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد محترمہ کی ایک وڈیو کلپ نشر کی گئی جس میں ان کا اشارہ براہ راست اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو ٹھہرایا گیا تھا ہم نے اس کی کلیئرنس فرحت اللہ بابر کے ذریعے بی بی سے حاصل کی تھی ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد لغاری صاحب ان افراد کو ڈھونڈ رہے تھے جو اس میں پیش پیش تھے  اور کئی واقعات جو ہوئے یا دیکھے اس کو پھر کبھی آپ کے سامنے رکھیں گے۔ 

جب کبھی بھی کوئی نیوز میں کمی بیشی ہوتی تھی اس کا نزلہ ڈائریکٹر نیوز پر ہی گرتا تھا، ان شخصیات میں مصلح الدین مرحوم، برہان الدین حسن مرحوم، حبیب اللہ فاروقی، ممتاز حمید راؤ مرحوم اور شکور سرفہرست ہیں۔

باتیں ہوتی رہیں گی جو کچھ دیکھا ہے اس کو قلمبند کروں گا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔مجھے پی ٹی وی میں کئی دوستوں اور افسران کی رہنمائی حاصل رہی انہوں نے جو پیار دیا میں نے اس کی ہمیشہ قدر کی۔ میں نے 29 اپریل 1986 کو جوائن کیا اور 29 اپریل 2002 کو اس ادارے کو خدا حافظ کہا۔ یوں 29 سے 29 کا اختتام ہوا اور  یکم مئی 2002 کو جیو نیوز سے نئے سفر کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔