06 مئی ، 2023
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق قانون کے کیس میں وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف دائر کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہے اور اس سلسلے میں متفرق درخواست دائر کردی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کا معاملہ ہے، عدالت کے روبرو عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، عدالت کے سامنے معاملہ اداروں کی اختیارات کی تقسیم کےآئینی نقطےکا بھی ہے، قانون کےخلاف درخواستیں اہم نوعیت کا آئینی معاملہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں آئینی نوعیت کے ایسے مقدمات کیلئے فل کورٹ بینچ بنائےگئے، اس مقدمے میں بھی آئینی نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں، سپریم کورٹ کے تمام ججز پر وفاق کا اعتبار ہے، سپریم کورٹ مقدمے میں سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دے۔
قبل ازیں آج وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر قانون کے خلاف درخواستیں مستردکرنےکی استدعا کی۔
وفاقی حکومت نے درخواستوں کےخلاف 8 صفحات کا جواب سپریم کورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کے ذریعے جمع کرایا۔
وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہےکہ قانون کے خلاف درخواستیں انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنےکی کوشش ہے اور درخواست گزاروں کی قانون کو چیلنج کرنے میں نیت صاف نہیں۔
وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہےکہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں، ماسٹر آف روسٹر کے تصور کو قانونی تحفظ حاصل نہیں، قانون سے چیف جسٹس کا آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اختیار ریگولیٹ ہوگا، اس قانون سے عدلیہ کے اختیارات میں کمی نہیں ہوگی، قانون میں آرٹیکل 184/3 کے اختیار میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔
جواب میں مزید کہا گیا ہےکہ آئین کا آرٹیکل 10 اے فئیر ٹرائل کا حق دیتا ہے اور آرٹیکل 184/3میں نظر ثانی کا اختیار بڑا محدود ہے، فئیر ٹرائل کیلئے اپیل کا حق ضروری ہے۔