15 مئی ، 2023
کئی سالوں سے کاغذوں اور فائلوں میں رُل رہے کراچی سیف سٹی منصوبے کے حوالے سے ایک بری خبر ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سیف سٹی کے عہدے سے ڈی آئی جی پولیس مقصود احمد میمن کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈی جی سے سٹی کا چارج اب ڈی آئی جی پولیس آصف اعجاز شیخ کو دے دیا گیا ہے جنہوں نے اس حوالے سے متعلقہ حکام سے اجلاس شروع کر دیے ہیں۔
چند سال قبل سیف سٹی پروگرام 29 ارب روپے میں مکمل کرنے کا بجٹ سامنے آیا تھا جس کے بعد ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے یہ منصوبہ 40 ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔
سندھ پولیس کے تحت سکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل مقصود احمد میمن کو جنوری 2020 میں کراچی سٹی پروگرام کا ڈی جی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے چارج سنبھالتے ہی اس منصوبے پر از سر نو کام کیا۔
مقصود احمد میمن نے ابتدائی دنوں میں ہی متعلقہ ملکی، غیرملکی اداروں اور کمپنیوں سے پے در پے میٹنگز کرکے کراچی سیف سٹی پروگرام کو حتمی شکل دی۔ ڈی آئی جی مقصود میمن کی کوششوں سے صدر پولیس لائن میں درجنوں پولیس کوارٹرز خالی کرائے گئے۔
ڈی جی سیفٹی کی جانب سے صدر کے بے گھر ہونے والے پولیس ملازمین کو فی کس 25 لاکھ روپے نقد اور متبادل گھر دینے کی دستاویزات فراہم کی گئیں۔ مقصود میمن نے کراچی سیف سٹی پروگرام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا۔متعلقہ غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں سے کیمروں اور انفراسٹرکچر کی انتہائی اچھی کوالٹی پر معاہدے کیے۔
ایک بڑی کمپنی کراچی سیف سٹی کیلئے فائبر آپٹک بچھانے کا کام 11 ارب روپے میں تین سال میں کرکے دے رہی تھی جسے مقصود میمن نے کم کرکے ڈیڑھ ارب روپے میں لاک کیا اور کام مکمل کرنے کا دورانیہ چھ ماہ کر دیا تھا، پروگرام کا بجٹ بچانے کا یہ سب سے بڑا کٹ تھا۔
اس کے علاوہ مختلف وینڈرز اور ٹھیکیداروں کو نکال کر براہ راست کمپنیوں سے بات چیت کی گئی جس بنا پر 40 ارب روپے کا یہ منصوبہ 22 ارب روپے پر لے آئے۔
واضح رہے کہ اس دوران ڈالر کی قیمت دگنی ہو چکی تھی مگر اس کے باوجود یہ منصوبہ 22 ارب روپے پر ہی لاک کر دیا گیا، 22 ارب روپے کا منصوبہ ہونے پر مختلف ٹھیکیداروں یا کمیشن مافیا کو کچھ نہیں ملنا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ تمام انتظامات مکمل ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے فنڈز مہیا نہیں کیے گئے۔
اب اچانک مقصود میمن کو ڈی جی سیف سٹی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اہم متعلقہ سرکاری ادارے کے کرپٹ اور بدعنوان عناصر اس منصوبے کو شفاف طریقے سے انجام تک پہنچانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ایک سال سے زائد عرصے سے پھر التوا کا شکار ہے۔ اگر بروقت فنڈز ریلیز کر ادیے جاتے تو اب تک یہ منصوبہ مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔
ماہرین مایوس ہیں اور یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ اب یہ منصوبہ 22 ارب روپے سے دگنی قیمت پر بھی مکمل ہونے کی امید نہیں ہے۔