انٹرٹینمنٹ

یاسر حسین سے بہتر کوئی ’جاوید اقبال‘ نہیں بن سکتا تھا: ہدایتکار ابو علیحہ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

رائٹر اور ہدایتکار ابو علیحہ کی فلم ککڑی 2 جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز کی جائے گی۔

گزشتہ سال کراچی میں اس فلم کا پریمیئر منعقد ہوا تھا جس کے اگلے ہی روزپنجاب سینسر بورڈ نے فلم کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے بین کردیا تھا ، البتہ سینسر بورڈ سے کلیئرنس کے بعد کچھ تبدیلیوں کے ساتھ جاوید اقبال ’ککڑی‘ کے نام سے ریلیز ہونے کے لیے تیار ہے ۔

ڈائریکٹر علی سجاد شاہ (ابو علیحہ) نے جیو ڈیجیٹل کو دیے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ فلم کی کہانی ایک سیریل کلر کی ہے جو تاریخ میں گزرے حقیقی واقعات کی عکاسی کرتی ہے ۔

سیریل کلر کی کہانی پر فلم بنانے کا کب سوچا ؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ تقریباً دس سال ایک نجی چینل میں بطور کرائم رپورٹر رہ چکے ہیں ، یہ 1999 کی بات ہے جب لاہور میں ایک مجرم کو پکڑا گیا جس کا نام جاوید اقبال تھا اور اس پر سو بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام تھا ، تب سے ہی یہ کردار میرے دماغ میں تھا،  جب یہ کیس عدالت تک پہنچا اور اس شخص کو سزا سنادی گئی تب میں نے ایک وکیل سے کہا کہ مجھے اس کیس کے چلان کی کاپی مل سکتی ہے؟

ایک مہینے بعد جب کاپی مجھے ملی تو پھر میں نے سوچا اس پر ویب سیریز بن سکتی ہے لیکن جب اسے ڈسکس کیا تو کسی نے گھانس نہیں ڈالی ۔

پھر میں نے جاوید اقبال پر پہلی کتاب لکھی جو کہ اس کے جرائم پر تھی،  اس کتاب کا رسپانس پبلک سے بہت اچھا ملا،  پھر میں نے اس کا دوسرا ایڈیشن لکھا جس میں اس کے ساتھ کی جانے والی انویسٹیگیشن اور بیک اسٹوری کے بارے میں لکھا تھا ۔

 اس کتاب کے 8 ایدیشن شائع ہوئے اور 6 مہینے میں بک گئے تو اندازہ ہوا کہ لوگ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، پھر میں نے فلم بنانے کی ٹھانی۔

اور پھر میری ملاقات پروڈیوسر جاوید احمد سے ہوئی اور میں نے انہیں اس فلم کے بارے میں بتایا لیکن میرے ذہن میں سینسر بورڈ بھی تھا لہذا میں نے انہیں پہلے ہی ہوشیار کردیا تھا کہ مشکل ہے کہ یہ فلم چلے ۔

ابو علیحہ نے تنقید میں رہنے کے باوجود یاسر حسین کو کاسٹ کرنے کے بارے میں بتایا کہ جب یہ فلم بنانے کا ارادہ کیا تو اس میں میری پہلی چوائس یاسر حسین تھے ۔

’یاسر کو کاسٹ کرنے پر انڈسٹری کے لوگوں نے اعتراض کیا کہ وہ جاوید اقبال کا کردار نبھا نہیں پائیں گے لیکن جب پوسٹرز شائع ہوئے تو انہی لوگوں کی طرف سے کالز موصول ہوئیں کہ تم نے تو کمال کردیا‘۔

ابو علیحہ نے کہا کہ میں نے یاسر کا تھیٹر میں کام دیکھا ہوا ہے، ڈرامے کی اسکرین پر لوگوں نے جو دیکھا وہ یاسر کا بیسٹ کام نہیں ہے ، مجھے اندازہ تھا کہ اس ایکٹر کو کتنا آگے تک لے جایا جا سکتا ہے ۔

یاسر حسین سے بہتر ’جاوید اقبال‘ کوئی نہیں بن سکتا

ککٹری میں یاسر حسین جاوید اقبال کے کردار میں روایتی پنجابی دکھائی دیں گے ۔

 ڈائریکٹر کے مطابق انہوں نے یاسر کے ساتھ اندرون لاہور کے مختلف چائے کے ہوٹلز پر جا کر مقامی لوگوں کی گفتگو کے انداز اور آوازیں موبائل پر ریکارڈ کی تھیں جس میں سے ایک لہجے کا انتخاب جاوید اقبال کے لہجے کے لیے کیا گیا جس کی پریکٹس یاسر نے کی۔

ہدایتکار نے کہا کہ میں جیتے جاگتے ریفرنس پیش کرنے کا عادی ہوں اور کسی بھی ایکٹر کا ایکٹنگ کوچ بننے پر یقین نہیں رکھتا ۔

’محسن عباس نے میری گزشتہ فلم دادل میں جبرو کا کیریکٹر کیا ہے ، یہ ایک ایسا پولیس والا ہے جو گالیاں بہت دیتا ہے ،محسن کو اس بات پر اعتراض ہوا کہ اس میں بہت گالیاں ہیں تو میں نے انہیں تھانہ کلچر دکھا کر سمجھایا کہ اب خود فیصلہ کرلو ، اس کے بعد محسن گالیاں دینے پر رضا مند ہوگئے‘۔

کیا ہدایتکار و لکھاری پاکستانی کلچر اور تاریخ پر مواد بنانے سے گھبراتے ہیں ؟

سوال کے جواب میں ابو علیحہ نے کہا کہ ہمیں شاید اپنے سینسر بورڈ سے ڈر لگتا ہے ورنہ اور تو کوئی وجہ نہیں ہوسکتی ، امازون اور نیٹ فلکس پر سیریل کلر کی کہانیوں کی ٹاپ ریٹنگ ہے، دنیا یہ کہانیاں دیکھنا چاہتی ہے لیکن پاکستان میں ’ککڑی‘ بین کردی جاتی ہے۔ 

انہوں نے اس بات کی وضاحت کچھ یوں دی کہ ’میری فلم یہاں نہیں چل سکی لیکن دنیا کے 11 فلم فیسٹیول میں دیکھی گئی جس میں سے 7 فیسٹیولز میں اسے ایوارڈ ملا، یوکے ایشین فلم فیسٹیول میں اس فلم کے لیے یاسر حسین بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئے جبکہ مجھے بیسٹ ڈائریکٹر کا ایوارڈ دیا گیا ۔

اس فلم کو برٹش فلم انسٹیٹیوٹ میں اوپننگ فلم کے طور پر دکھایا گیا تھا جس کے لیے میں آج بھی فخر محسوس کرتا ہوں‘۔

فلم کو بین ہونے سے بھی کوئی فائدہ پہنچا؟

ہدایتکار نے کہا کہ فلم پاکستان میں تو نہ لگ سکی لیکن جب ہم نے یوکے کے 8 شہروں میں ایک ہفتے کے لیے ’جاوید اقبال‘ کو نمائش کے لیے پیش کیا تو یہ فلم اتنی چلی کہ پروڈیوسر کے پیسے پورے ہوگئے۔

 انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کیا کہ بین ہونے سے کسی بھی فلم کی مقبولیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ٹکسالی کا مطلب کیا ہے؟

ابو علیحہ ایک خود مختار فلم میکر ہیں اور انہیں سیٹس کے بجائے اوریجنل لوکیشنز پر شوٹ کرنا پسند ہے،عید الاضحٰی پر ریلیز ہونے والی ان کی فلم ’ٹکسالی گیٹ‘ میں فلم بینوں کو اندرون لاہور کی اوریجنل لوکیشنز دکھائی دیں گی ۔

ہدایتکار نے کہا کہ ٹکسالی اور ہیرا منڈی ایک ہی جگہ کے دو نام ہیں ، اندرون لاہور میں داخل ہونے کے 12 دروازے ہیں جبکہ ٹکسالی وہ گیٹ ہے جس سے گزر کر ہیرا منڈی میں داخل ہوا جاتا ہے۔

سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز اور ’ٹکسالی‘ کی کہانی!

انہوں نے کہا کہ ہماری فلم سنجے لیلا کی کہانی سے مختلف ہے کیونکہ ہم نے ٹکسالی گیٹ کے علاقے میں ہونے والے ایک قتل اور اس سے جڑے حیران کن واقعات کی کہانی دکھائی ہے ۔

 جبکہ سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز ہیرا منڈی کی تاریخ پر بنائی گئی ہے۔

ٹکسالی کا مرکزی کردار زینب، مہر بانو نے نبھایا ہے جو فلم میں نیئر اعجاز کی بیٹی ہیں ، یاسر حسین شفیق اور عائشہ عمر اندرون لاہور کی لڑکی مسکان کا کردار نبھا رہی ہیں۔

فلم بینوں کو ٹکسالی کا ٹریلر زیادہ معلومات نہیں دے سکے گا کیونکہ یہ اس مقصد کے تحت بنایا نہیں گیا ہے، البتہ ڈائریکٹر ابو علیحہ کا کہنا ہے کہ ٹکسالی ان کی اب تک کی سب سے زیادہ بجٹ والی اور خوب صورت فلم ہے۔

 ککڑی میں یاسرحسین نے جاوید اقبال کے کردار میں شاید اس سال کی بیسٹ پرفارمنس دی ہو  لیکن ’ٹکسالی‘ میں بطور ’شفیق‘ ان کی اداکاری اس دہائی کا سب سے نفیس کام ہے۔

عید الفطر پر ریلیز ہونے والی ابو علیحہ کی دو فلمیں دادل اور سپر پنجابی باکس آفس پر دھوم تو نہ مچا سکیں ، البتہ ان کا کہنا ہے کہ سپر پنجابی کے بعد انہیں مزید دو پنجابی فلمیں بنانے کی پیشکش ہوئی ہے اور وہ عید الاضحٰی کے بعد ’مینگو جٹ‘ کے شوٹ پر جارہے ہیں ۔

فلم کی کاسٹ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے دو بڑے ناموں کو مرکزی کردار کی پیشکش کرچکے ہیں جن میں سے ایک مارننگ شو ہوسٹ بھی ہیں اور دوسرے اکثر کامیڈی ڈراموں میں پنجابی کردار کرتے رہے ہیں۔

مزید خبریں :