03 جون ، 2023
المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے ریاستی سطح پر دہشت گردی کی واضح تعریف نہیں کی لیکن گزشتہ بائیس سال میں بہت سارے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا، غائب کرایا گیا یا پھر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔
اسی طرح ماضی کے ان برسوں میں جب حکومت اور ریاستی اداروں نے چاہا اپنے کسی نقاد پر انسداد دہشت گردی کا مقدمہ قائم کردیا اور دوسری طرف بہت سارے لوگ اگر دہشت گرد کی تعریف پر پورا اترتے تھے، انہیں اس لیے آزادی کے ساتھ گھومنے دیا گیا کہ وہ ریاست یا حکومت کے لاڈلے تھے۔ عمران خان وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ اپنے سیاسی مخالفین پر دہشت گردی اور غداری کے فتوے لگائے اور ان کی حکومت میں سب سے زیادہ سیاسی مخالفین ریاستی اداروں کی مدد سے گرفتار ہوئے۔
اسی طرح ریاستی اداروں پر جائز تنقید کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم ہوئے لیکن مکافات عمل کے قانون کے تحت 9مئی کو عمران خان کی جماعت کے لوگ نہ صرف سکیورٹی فورسز کی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے بلکہ شہدا کی یادگاروں اور ایم ایم عالم کے جہاز تک کو جلا ڈالا۔ اب پی ٹی آئی کے مخالفین اس کو دہشت گرد جماعت کا طعنہ دے رہےہیں تو دوسری طرف عمران خان اور ان کےساتھی بار بار یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ ہم دہشت گرد کیسے ہوسکتے ہیں؟
میں فتوے لگانے کے قابل ہوں اور نہ اس کا قائل، اس لیے کبھی کسی کو غدار کا ٹائٹل دیا، دہشت گرد کا، منافق کا اور نہ غیرمحب وطن کا۔ جب عمران خان کی حکومت میں پی ٹی آئی کے وزرا اور بالخصوص پختون وزرا پختون تحفظ موومنٹ کے عہدیداروں کو ملک دشمن قرار دیتے تھے یا پھر مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھانے والوں کو دہشت گردی سے جوڑتے تھے تو میں نے نہ صرف ان کے اس رویے پر میڈیا میں شدید تنقید کی بلکہ خلوتوں میں بھی ان کو سمجھاتا رہا کہ آپ لوگ دلیل سے ان کے رویے یا بات کو غلط کہیں لیکن کسی جنرل یا کرنل کی خوشی کیلئے انہیں غدار اور ملک دشمن یا بیرونی ایجنٹ کے القابات سے یاد نہ کریں۔ اب ایک طرف پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ اس کے خلاف ریاستی دہشت گردی ہورہی ہے اور دوسری طرف حکومت اور پی ٹی آئی کے نقاد کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ 9مئی کے بعد دہشت گرد جماعت بن گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دہشت گرد کون ہے؟عرض ہے کہ دہشت گردی انتہاپسندی سے جنم لیتی ہے۔ سادہ الفاظ میں انتہا پسندی کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صرف اپنی بات کو درست کہیں اور باقی ہر کسی کی بات کو غلط کہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ اپنی بات یا نظریے میں کسی غلطی کے امکان کو تسلیم نہ کریں اور مخالف بات یا نظریے میں صداقت کے امکان کو تسلیم نہ کریں۔ یعنی صرف اپنی پارٹی، اپنے لیڈر اور اپنے نظریے کو درست اور باقیوں کو مکمل طور پر باطل سمجھنا اور اس میں کسی شک کے امکان کو تسلیم نہ کرنا انتہا پسندی ہے۔ اب اس حوالے سے دیکھا جائے تو عمران خان نے پی ٹی آئی کو ایک انتہا پسند جماعت بنا دیا تھا۔
وہ صرف اپنے آپ کو فرشتہ اور باقی سب لیڈروں کو چور، ڈاکو اور منافق کہتے رہے۔ اسی طرح ان کے پیروکار بھی اپنے لیڈر کے ہاں کسی غلطی کے امکان کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور کسی اور مخالف لیڈر کے ہاں کسی خوبی کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ عمران خان مخالف سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈروں کو سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کوبھی تیار نہیں تھے۔
اپنی حکومت میں بھی وہ یہ کہتے رہے کہ میں ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا اور نہ کبھی ان کے ساتھ بیٹھے جبکہ حکومت سے نکلنے کے بعد بھی کہتے رہے کہ مخالف، سیاسی لیڈر چور ہیں اور چوروں سے میری بات نہیں ہو سکتی۔ یوں میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو دھیرے دھیرے عمران خان نے انتہا پسند جماعت بنا دیا تھا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں انتہا پسندی کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ:
Belief in and support for ideas that are very far from what most people consider correct or reasonable.
اسی طرح دہشت گردی کی تعریف انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں یوں کی ہے کہ:
The use of violent acts to frighten the people in an area as a way of trying to achieve a political goal.
یعنی اپنے سیاسی نظریات اور مقاصد کو تشدد، طاقت (خواہ وہ عوامی ہویا بندوق کی) کے ذریعے یا پھر متشددانہ اقدامات سے حاصل کرنے کا نام دہشت گردی ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ صرف اپنی بات، اپنے نظریے، اپنی پارٹی اور اپنے مسلک کو ہی درست سمجھنا اور باقی سب کو غلط سمجھنا انتہا پسندی ہے اور پھر کسی بھی طاقت (عوامی ہو یا بندوق کی) کے ذریعے اپنے نظریے کو مسلط کروانا دہشت گردی ہے۔ بظاہر تو ٹی ٹی پی کا مقصد بھی انتہائی نیک یعنی اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔
بلوچستان کے لوگوں کے شکوے بھی جائز ہیں اور بظاہر بلوچ عسکریت پسند اگر اپنا حق مانگتے ہیں تو اس حد تک ان کی بات بھی درست ہے لیکن ہماری ریاست انہیں دہشت گرد اس لئے کہتی ہے کہ وہ طاقت کے بل پر اسلام نافذ کرنا یا پھر بلوچستان کے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اب جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران خان صرف اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور باقی سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعتیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے 2014 میں بھی دھرنوں (جس کے اسکرپٹ میں سو سے زائد بندوں کو مروانا شامل تھا) کے ذریعے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پھر لاک ڈائون کے ذریعے اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔
اقتدار میں آنے کے بعد مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر اور قوانین کا خوف دلا کر انہوں نے اپنے نقادوں کو دبانے کی کوشش کی۔ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی وہ عدالتی یا پارلیمانی طریقے کی بجائے عوامی طاقت سے حکومت اور ریاستی اداروں کو خوفزدہ کر کے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے پولیس افسران کو بھی دھمکیاں دیں اور ججز کو بھی۔ اپنے ساتھ ہجوم لا کر عدالتوں کو بھی خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے جبکہ 9مئی کو انہوں نے اپنے پیروکاروں کے ذریعے ملک بھر میں فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنا کر اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ گویا پروپیگنڈا کر کے صرف اپنے آپ کو حق اور باقی سب کو باطل کہنا یا پھر عوامی طاقت کے ذریعے مخالفین کو خوف میں مبتلا کرکے اپنی بات منوانا ان کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ پی ٹی آئی دہشت گرد تنظیم ہے یا سیاسی؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔