12 جون ، 2023
پاکستانی سنیما کی صنعت تیزی سے زبوں حالی کا شکار ہے اور اس وقت ملک میں سنیما گھروں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے، ایسے میں فلم بنانا اور اس کے ذریعے پیسے کمانا ایک مشکل بلکہ ناممکن عمل ہے۔
تاہم اب اس مشکل کے حل کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک قدم اٹھایا ہے جس کے تحت پاکستان میں فلم سازوں کو فلم بنانے کے لیے خصوصی گرانٹ دی جائے گی اور اس مقصد کے لیے 2 ارب روپے وفاقی بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔
جیو ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے اور یہاں ’اسکرین ٹورازم‘ کے بہترین مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں،
’اسکرین ٹورازم‘ یا فلمی سیاحت ایسے مقام کو کہا جاتا ہے جو اس وجہ سے مقبول ہو جائے کہ وہ کسی فلم میں نظر آئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خصوصی گرانٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کی تاریخ کو محفوظ کرنا اور ثقافت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس گرانٹ سے پاکستانی فلم سازوں کو سہولتیں حاصل ہوں گی اور وہ پاکستانی ریاست سے بیانیے کو عالمی سطح تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ 2 ارب کی یہ رقم قرض نہیں ہے بلکہ یہ گرانٹ ہے جو فلم سازوں کو دی جائے گی اور ہر فلم کو اپنی انفرادی حیثیت میں پرکھ کر اس کی مالی معاونت کا فیصلہ کیا جائے گا، مزید یہ کہ اس ضمن میں ایک فلم کونسل بھی تشکیل دی جائے گی جس کے دس ارکان ہوں گے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس معاملے کے لیے 10 رکنی کونسل تشکیل دی گئی ہے، فلمی کونسل کے ارکان میں پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور مختلف اداروں کے سربراہ شامل ہوں گے، فلم کونسل کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا کہ کس کہانی کو فلم سازی کے لیے کتنی رقم بطور امداد فلم سازی کے لیے دی جاسکتی ہے۔
مریم اورنگزیب نے واضح کیا کہ اس امدادی رقم کا مقصد فلمی موضوعات کو وسعت دینا ہے تاکہ اس کے ذریعے فلمی سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہو سکے۔
یاد رہے کہ سنیما میں فروخت ہونے والے ہر ٹکٹ کی رقم کا 50 سے 60 فیصد حصہ سنیما کا ہوتا ہے جبکہ 5 سے 15 فیصد تک تقسیم کار (ڈسٹری بیوٹر) کا حصہ ہوتا ہے، پروڈیوسرز کے پاس فلم کا بمشکل 30 فیصد حصہ ہی آتا ہے۔
یعنی اگر ایک فلم 5 کروڑ میں بنتی ہے تو پروڈیوسر کے پاس اپنے پیسے واپس کمانے کے لیے فلم کو کم از کم 15 کروڑ کمانے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سینیما گھروں کی قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے فلم سازوں کے لیے اپنی رقم واپس کمالینا ہی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2022 میں مولا جٹ، لندن نہیں جاؤں گا، قائدِ اعظم زندہ باد اور گھبرانا نہیں ہے کہ علاوہ دیگر ریلیز ہونے والی ایک بھی فلم اپنے پیسے بھی پورے نہیں کر سکی تھی۔
وفاقی وزیرِ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس قدم کو پاکستان کے فلم سازوں نے خوش آمدید کہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ فلم سازی کے لیے ملنے والی گرانٹ کا طریقہ کار شفاف ہو گا۔
پاکستان کی صفِ اول کی فلم ساز فضہ علی مرزا کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس فیصلے کے بہترین نتائج کی توقع ہے۔
ایک نجی سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے اس بارے میں بتایا کہ یہ فلم سازوں کے لیے بہت حوصلہ افزا بات ہے اور اس سے فلم سازوں کو بہت ہی زیادہ ہمت ملے گی، پاکستان میں سنیما کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بہت سے فلم ساز فلم بنانے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے اب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
ماسٹر مائنڈ پروڈکشنز کے سربراہ حسن ضیاء کا کہنا تھا کہ حکومت کو یقینی بنانا ہو گا یہ فلم سازی کے لیے مختص رقم کا فائدہ صرف حقیقی فلم سازوں کو ہی پہنچے اور فصلی بٹیرے اس سے مستفید نا ہو سکیں۔
دوسری جانب فنکاروں کی بہبود کے لیے حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے کی انشورنس کے بارے میں مریم اورنگزیب نے بتایا کہ جن کا نام فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن تجویز کرے گی ان کی ہیلتھ کارڈ کے ذریعے مدد کی جائے گی۔
حکومت کے اس قدم کو اداکار ساجد حسن سراہتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں اداکار بہروز سبزواری نے کہا کہ اس سے ملک میں بہت سے فنکار جو علاج کی سہولت سے محروم رہ جاتے تھے ان کو بہت مدد ملے گی اور اس کا فائدہ اس صنعت سے وابستہ کیمرا مین اور دیگر تکنیکی افراد کو بھی ضرور ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال بھی موجودہ حکومت نے وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کی ذاتی کوششوں سے بجٹ میں باقاعدہ فلم پالیسی کو شامل کر کے اس کی منظوری دی تھی۔