تکبر کا انجام

سادہ لوح لوگ پاکستانی ، عمران خان کو سیدھا سادہ سیاستدان سمجھتے تھے لیکن 1996میں میری یہ رائے بنی کہ وہ پاکستان کے چالاک ترین سیاستدان ہیں۔ ایک ایسے سیاستدان جن کے سینے میں دل نہیں، جو سراپا دماغ ہیں، جو سراسرخواہشات ہیں، جو دیگر سیاستدانوں کے تین چہروں کے برعکس چار چہرے لئے پھرتے ہیں اور جس کو جو چہرہ دکھانا چاہتے ہیں، دکھا دیتے ہیں۔ 

میری یہ رائے دور طالب علمی میں ان کو قریب سے دیکھنے کے بعد قائم ہوئی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کی بجائے مزید پختہ ہوتی گئی۔ لوگ انہیں رحم دل لیکن میں سفاک ترین انسان سمجھتا رہا۔ لوگ انہیں سادگی کا نمونہ سمجھتے رہے لیکن میں انہیں تکبر کا مجسم پہاڑ سمجھتا رہا۔ لوگ انہیں انسانیت کیلئےتڑپنے والا قرار دیتے رہے لیکن میرا یقین رہا کہ ان کی سوچ ذات سے شروع ہوتی اور ذات پرہی ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو مغرب کا مخالف مشہور کر رکھا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ انہیں مخصوص مغربی طاقتوں نے لانچ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چوبیس سال کے دوران میری صحافت ان کے بارے میں تنقید سے عبارت رہی ۔ 

انہوں نے خود بھی کوشش کی اوردرمیان میں کئی لوگ بھی پڑے کہ ہماری دوستی ہوجائے لیکن چونکہ میرا دل میرے دلائل کے ساتھ کھڑا تھا ، اسلئے مختلف شکلوں میں قیمت ادا کرنے کے باوجود اپنی رائے نہ بدلی۔ میرے بعض ساتھی تو کچھ برسوں سے گالیاں کھارہے ہیں لیکن میں گزشتہ بیس سال سےگالیاں برداشت کررہا ہوں۔ وہ پاکستان کی مقبول ترین سیلیبرٹی اورسیاستدان ہونے کے ناطے ٹی وی اینکرز کے شوز کی ریٹنگ کا موجب تھے لیکن 2012 میں ایک انٹرویو کے علاوہ انہوں نے پھر کبھی میرے سامنے بیٹھنے کی ہمت نہیں کی۔

 2010 کے بعد وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی جرنیلوں کا پروجیکٹ بھی بنے تو مجھے ان جرنیلوں کے قہر کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ان کے سرپرست جرنیلوں نے میرے خلاف مختلف حربے استعمال کئے۔ ایک جرنیل تو اس حد تک گرے کہ 2014کے دھرنوں میں عمران خان کی شہہ پر مختلف خواتین کے ذریعے میرے ہنی ٹریپ کے منصوبے بھی بنائے۔ یہ جرنیل صاحبان کبھی مجھے پیار سے رام کرنے کی کوشش کرتے رہے اور کبھی دھمکیوں سے ۔ 2018 میں عمران خان کو اقتدار دلوانے کیلئے الیکشن کے نام پر فراڈ کا آغاز ہوا تو میں ان چند صحافیوں میں سے ایک تھا جو مزاحم بننے کی کوشش کرتے رہے ۔

 چنانچہ میں بھی ان کے سرپرست جرنیلوں کے نمبرون نشانوں میں شامل ہوگیا۔ الیکشن ٹرانسمیشن سے اٹھوایا گیا اورمیں گھر سے اٹھائے جانےکیلئے حملے سے لے کر (واضح رہے کہ اس میں میرے سیکورٹی گارڈ شدید زخمی ہوئے ۔ اس کی ایف آئی آر اس وقت سے درج ہے لیکن عمران خان کے پورے اقتدار سے لے کر آج تک رتی بھر پیش رفت نہیں ہوئی) جنگ اور جیو کے مالکان پر میرے معاملے میں بدترین دبائو اور سنسرشپ جیسے حربے برداشت کرتا رہا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے پہلے ہفتے میں خفیہ اداروں اور ایف بی آر وغیرہ کو میرے خلاف متحرک کیا اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ صحافیوں میں سرکاری سطح پر اگر کسی کی ٹرولنگ پر سب سے زیادہ سرکار کا پیسہ خرچ ہوا تو وہ یہ عاجز ہی تھا۔

 اس عمل میں کئی دوست بھی دشمن بنے لیکن اللہ گواہ ہے کہ میں بقا کی اس جنگ کو پوری خوش دلی کے ساتھ لڑتارہا کیونکہ میرا ضمیر مطمئن تھا اور میں ان کے بارے میں اپنی رائے پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا رہا۔ کبھی فریاد کی اور نہ کبھی اپنا راستہ بدلنے کا سوچا۔بہت کمزور انسان ہوں لیکن والد ہ مرحومہ کی دعائوں اور اللّٰہ کے خصوصی کرم نے مجھے اس قابل بنائے رکھا کہ ان سب چیزوں کا مقابلہ ملک کے اندر رہ کر کروں۔ الحمدللّٰہ آج ایسا وقت آگیا کہ عمران خان کی حقیقت واضح ہوتی جارہی ہے حالانکہ بہت سارے لوگ اب بھی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔

آپ اقتدار سے عمران خان کی محرومی کے بعد ان کی حرکتوں کو دیکھ لیں تو اس عاجز کی رائے کی تصدیق کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔ مثلاً انہیں پوری طرح یقین تھا کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں لیکن زلمے خلیل زاد کے ساتھ مل کر انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ یہ مشہور کریں گے کہ امریکہ نے انہیں اقتدار سے نکالا اور پھر ایک سائفر کو جواز بنا کر انہوں نے کئی ماہ تک اس جھوٹ کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلایا۔ آج وہ اسی امریکہ میں لابنگ فرمز کی خدمات کروڑوں ڈالروں کے عوض حاصل کرکے ان سے مدد مانگ رہے ہیں ۔ 

عمران خان کو اقتدار دلوا کر اور ان کیلئے ملکی اداروں کے وقار کو دائو پر لگا کر جنرل باجوہ نے اپنے اور ملک کے ساتھ بہت ظلم کیا،تاہم عمران خان کا اگر کوئی سب سے بڑا کوئی محسن ہے تو وہ جنرل باجوہ ہی ہیں۔ جنرل باجوہ وہ سب کچھ نہ کرتے تو عمران خان کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ان کے خلاف بول بول کرانہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد وہ شہرت کے گھوڑے پر دوبارہ سوار ہوئے اور درپردہ انہیں بعض مغربی لابیوں کی شہہ بھی حاصل رہی تو وہ ایک بار پھر روایتی تکبر کا شکار ہوگئے۔ شہباز شریف اور زرداری ان سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن و ہ متکبرانہ انداز میں کہتے رہے کہ چوروں سے بات نہیں کریں گے تاہم پھر اللہ نے انہیں یہ وقت دکھایا کہ انہی سے بات چیت کیلئے کمیٹیاں بناتے رہے۔ 

ایک بنیادی غلطی ان سے یہ سرزد ہوئی کہ وہ جنرل عاصم منیر کو جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل ندیم انجم کو جنرل فیض حمید سمجھنے لگے حالانکہ ان کی شخصیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔عمران خان مقبولیت کے زعم میں اور مغربی طاقتوں کی شہہ پرجنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، میجر جنرل فیصل نصیر اور بریگیڈئیر فہیم رضا وغیرہ پر بھی حملہ آور ہوئے۔

اپنے قتل کے منصوبوں جیسے سنگین الزامات لگا کر انہوں نے ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن درپردہ رابطے اور منتیں کررہے تھے۔ بات نہ بنی تو مقبولیت کے غرور میں ان سے دوسری بڑی غلطی 9مئی کی سرزد ہوئی۔ چنانچہ آج آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کیلئے منتیں کررہے ہیں لیکن وہاں سے جواب مل رہا ہے کہ آپ کیلئے اب یہ سہولت دستیاب نہیں۔ راتوں رات عمران خان ایسے سر کے بل گرے کہ اب ان کے حریف یعنی مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا وغیرہ ان جیسے تکبر کا شکار ہونے لگے۔

 بہ ہر حال ہم سب اور بالخصوص عمران خان کے سیاسی مخالفین کیلئے خود عمران خان کا یہ عروج و زوال ایک سبق ہے۔ انہیں سبق لینا چاہئے کہ اگر صرف چالاکیوں سے کام چل سکتا تو پھر عمران خان جیسا چالاک انسان کبھی نہ پھنستا ۔ اسی طرح عمران خان کے انجام میں مریم، بلاول اور مولانا وغیرہ کیلئے بالخصوص اور ہم سب کیلئے بالعموم یہ سبق ہے کہ کبھی طاقت یا شہرت کے نشے میں مبتلا ہو کر غرور اور تکبر سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ رب کائنات ہر گناہ معاف کرسکتا ہے لیکن تکبر کرنے والے کو ضرور اس دنیا میں نمونہ عبرت بناتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔