نواز الدین صدیقی کی’ ضد ‘ نے انہیں کامیاب اداکار بنایا

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

آج سے تقریباً 2 دہائیوں قبل جب بالی وڈ اداکار نواز الدین صدیقی نے انڈسٹری میں اپنا تعارف ’اداکار‘ کہہ کر کروایا تو سننے والے نے اس بات کو غیر سنجیدہ لیا اور جواب میں کہا کہ ’ تم دیکھنے سے تو بالکل اداکار نہیں لگتے ‘۔

انڈسٹری کی شخصیات ہی نہیں بلکہ نواز الدین کے دوست اور رشتے دار بھی انہیں اداکار ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سانولی رنگت اور پستہ قد، نواز اور ان کے اداکاری کے شوق کے درمیان لوہے کی دیوار بن کر کھڑے تھے جس کا انہیں مقابلہ کرنا تھا۔

ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں، کئی سالوں قبل تک انڈسٹری میں لمبے چوڑے یا خوش شکل شخص کو ہی اداکاری کا موقع دیا جاتا تھا۔ اب یہ رواج کافی حد تک کم تو ہوا ہے لیکن بالکل ختم نہیں ہوا۔

نواز الدین کا تعلق ایک ایسے گاؤں سے ہے جہاں اس وقت مکمل طور پر بجلی کی سہولت بھی میسر نہ تھی، کبھی بلب روشن ہوگیا تو ٹھیک ورنہ کئی کئی دن تک اندھیرا اور گرمی گاؤں والوں کا مقدر تھی اور وہ اس طرح زندگی گزارنا سیکھ چکے تھے۔ دوستوں کے ساتھ مل کر گاؤں سے گزرنے والے ٹرک سے گنے چرانا نواز کا مشغلہ تھا۔ موصوف کے سر پر اداکاری کا ایسا بھوت سوار تھا کہ اس چکر میں انہیں اپنی نوکری گنوانے کا بھی کوئی غم نہ ہوا۔

نواز کے لیے سب سے مشکل وہ لمحہ تھا جب وہ اداکاری کے مواقعوں کی تلاش میں گاؤں سے شہر منتقل ہوئے۔ شہر کا شور شرابہ گویا انہیں کاٹ کھانے دوڑ رہا تھا لیکن جیسے تیسے کرکے انہوں نے مختلف سرگرمیوں کے ذریعے اپنا دھیان بنٹائے رکھا اور یہ وقت گزار لیا۔

اب وہ شہر کی زندگی کو کافی حد تک سمجھ گئے تھے اور اب ان کی پوری توجہ اداکار بننے پر تھی۔ کام کی تلاش میں شہر بھر کی خاک چھاننے کے بعد بھی کوئی کام نہ ملا، ہر بار انہیں ان کے حُلیے کی وجہ سے مسترد کردیا جاتا لیکن اتنی دھتکار کے باجود اداکار بننا نواز کی ضد بن گئی تھی۔ وہ ایک روایتی اداکار نہیں بننا چاہتے تھے بلکہ وہ ایک منفرد کردار کرنے کے خواہاں تھے جس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جو سب کر رہے ہیں، میں بھی وہی کیوں کروں؟

برسوں کی دن رات محنت کے بعد بھی کوئی نمایاں کردار نہ ملنے پر نواز یہ سمجھ چکے تھے کہ صرف کام ڈھونڈنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ لوگوں کے بیچ میں رہ کر اداکار اور حاضرین کے تعلق کو سمجھنا پڑے گا کہ لوگ ایک اداکار کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اس سے کیا توقع کرتے ہیں۔ انہوں نے پھر یہی حکمت عملی اپنائی اور لوگوں کے بیچ میں رہ کر اپنے کرداروں کو ڈھونڈنے لگے۔

اکثر لوگوں کا گمان ہے کہ شاید نواز الدین نے صرف فلمیں دیکھ کر یا چھوٹے موٹے کردار کرکے ہی اداکاری شروع کردی۔ اگر آپ بھی یہ سوچتے ہیں تو آپ غلط ہیں، کیوں کہ نواز نے اپنا شوق پورا کرنے کے لیے نیشنل اسکول آف ڈرامہ سے اداکاری کی ٹریننگ لی اور اپنے شعبے سے متعلق سیکھا۔ وقت گزرتا گیا اور نواز کو کام ملنا شروع ہوگیا۔ جو لوگ شکل و صورت کی بنیاد پر سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے تھے، وہی اسکرین پر ان کا کام دیکھ کر کافی متاثر ہوئے۔

فلم سرفروش سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے نواز الدین صدیقی نے فلموں میں اپنے ہر کردار کو ایسے نبھایا کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ گینگز آف واسع پور، لنچ باکس ، ٹھاکرے اور بدلہ پور جیسی فلموں میں اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ کامیابی ان کا مقدر بن گئی۔

نواز الدین کو ہمیشہ یہی کہتے سنا ہے کہ قسمت نے انہیں اس مقام پر نہیں پہنچایا بلکہ انہوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کی۔ اگر قسمت بدلنے کا انتظار کرتے تو شاید کبھی اپنی زندگی نہیں بدل پاتے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔