21 اگست ، 2023
پاکستان کو اس وقت پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہے، اقوام متحدہ کی ’گلوبل واٹر سیکورٹی 2023 جائزہ رپورٹ میں پاکستان کی پانی کے سنگین عدم تحفظ کا شکار ریاست کے طورپر درجہ بندی کی گئی ہے جس نے پانی کے حوالے سے درپیش بحران سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
اقوام متحدہ 23 اگست سے یکم ستمبر 2023 تک ورلڈ واٹر ویک منا رہا ہے۔ اس موقع پریہ رپورٹ تشویش ناک حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور فی کس پانی کی دستیابی میں نمایاں کمی ہورہی ہے۔
یہ صورتحال مزید گھمبیر ہورہی ہے کیونکہ پاکستان کے آبی وسائل مختلف عوامل کے نتیجے میں انتہائی دباؤ کا شکار ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، آبادی میں تیزی سے اضافہ اور پانی کے ذخائر کے ناقص انتظامات شامل ہیں۔
ملک کو اس وقت پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں صورتحال مزید خراب ہوجائے گی، 70 برسوں میں پاکستان میں فی کس دستیاب پانی میں 80 فیصد کمی ہوئی ہے جس نے قوم کو پانی بحران کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔
پاکستان کا زرعی شعبہ سب سے زیادہ پانی استعمال کرتا ہے جو کل استعمال کا 70سے 90فیصد بنتا ہے۔ اس کی وجہ گنے اور چاول جیسی پانی کی زیادہ مقدار والی فصلیں ہیں۔
شیخوپورہ کے مضافات سے 30کلو میٹر دور ایک فارم ہے، اس کے مالک مصطفیٰ یوسف ان مٹھی بھر کسانوں میں شامل ہیں جنہوں نے جدید زرعی طریقے استعمال کیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک بہتر حل ڈرپ ایری گیشن کا استعمال ہے جو ایک ایسا طریقہ ہے جس سے کم دباؤ سے پانی براہ راست پودے کی جڑوں تک پہنچایا جاتا ہے، اس طریقہ کار سے پانی کی 50 فیصد تک بچت ہوسکتی ہے اور فصل کی پیداوارمیں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مصطفیٰ یوسف نے اپنے امرود کے باغ میں ڈرپ ایری گیشن کا جدید طریقہ اپنایا ہے جس کے نتیجے میں انہیں زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔
قابل ذکر بات ہے یہ کہ زرعی معیشتیں جیسا کہ بھارت اور امریکا اس نظام کی طرف منتقل ہورہی ہیں۔
تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم نے ابھی تک اس تبدیلی کو قبول کیوں نہیں کیا؟اس وقت پاکستان کے بہت کم زرعی رقبے جو تقریباً 0.2 فیصد سے کم بنتا ہے، میں ڈرپ ایری گیشن استعمال کیا جارہا ہے جو 70 ہزار سے ایک لاکھ ایکڑبنتا ہے۔ اس کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ڈرپ ایری گیشن نظام کے سیٹ اپ پرآنے والی لاگت ہے۔
مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ افراط زر کی موجودہ شرح کو مدنظررکھتے ہوئے ڈرپ ایری گیشن سسٹم کیلئے فی ایکڑ ساڑھے 3 لاکھ روپے سے ساڑھے 4 لاکھ روپے تک سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو پاکستانی کسانوں کیلئے اچھا خاصا بوجھ ہے، اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت نے ابتدائی لاگت کیلئے 60 فیصد کی سبسڈی متعارف کرائی لیکن سبسڈی کے باوجود 40 فیصد ان کیلئے زیادہ ہیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے سولر پر حالیہ سبسڈی نے کچھ حد تک اس مسئلے کو کم کیا۔
نیسلے کے ترجمان راحت حسین نے کہا کہ ان چیلنجزکے ردعمل میں انہوں نے نے کیئرنگ فار واٹر پاکستان پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت بقیہ 40 فیصد لاگت(کسان کا حصہ) کیلئے سرمایہ فراہم کیا گیا جبکہ پنجاب حکومت کی طرف سے 60 فیصد کی سبسڈی دی گئی۔
انہوں نے بتایاکہ اس کوشش سے 139ایکڑ زرعی رقبے پر ڈرپ ایری گیشن اور 548 ایکڑ رقبے پر مٹی کی نمی چیک کرنے والے سنسرز نصب کیے گئے جس سے گزشتہ سال اندازاً 4 لاکھ 82 ہزار 556 کیوبک میٹرز پانی کی بچت ہوئی۔
کرنسی کی بے قدری کی وجہ سے درآمد شدہ سپیئر پی وی سی سمیت خام مال کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ زرمبادلہ کے خسارے کو مدنظر رکھتے ہوئے اب وقت آگیا ہے کہ پالیسی ساز مقامی پیداوار پر توجہ مرکوز کریں۔
ان کا کہنا تھاکہ صلاحیت ہونے کے باوجود پنجاب ڈرپ ایری گیشن طریقہ اختیار کرنے میں دیگر صوبوں سے پیچھے ہے، ورلڈ بینک کے تعاون سے شروع کیے گئے 185 ملین ڈالرز کے منصوبے کے باوجود سندھ کا تقریباً 10 فیصد رقبہ ڈرپ پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید بتایاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس سے نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ، اگرچہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کی غلطی نہیں ہوسکتی ہے لیکن بقا کی خاطر حل تلاش کرنا بالآخر ہماری ذمہ داری ہے۔