Time 30 اگست ، 2023
انٹرٹینمنٹ

فاطمہ، رضوانہ کیس: ماہرہ سمیت دیگر اداکاروں نے ظلم و زیادتی کے بڑھتے واقعات پر آواز اٹھادی

ہر برسر اقتدار حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک مکمل نظام بنایا جائے، لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے : ماہرہ خان/فوٹوفائل
ہر برسر اقتدار حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک مکمل نظام بنایا جائے، لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے : ماہرہ خان/فوٹوفائل 

اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا ہے کہ فاطمہ اور رضوانہ کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعات پر شدید دکھ ہے، بچوں کے ساتھ پیش آنے والے تشدد، قتل و زیادتی کے واقعات پر خاموش نہیں رہا جاسکتا ہے ۔

ماہرہ خان  نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں چائلڈ لیبر اینڈ ٹریفیکنگ کے خاتمے پر منعقدہ پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر برسر اقتدار حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک مکمل نظام بنایا جائے، لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے ۔

ماہرہ خان نے میڈیا سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کیسز کو رپورٹ کرنا ہر گز بند نہ کریں، وہ خود بھی ان واقعات پر سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ بات کریں گی ۔

کیا ڈرامہ انڈسڑی میں بننے والی کہانیاں معاشرے کی اصلاح کرسکتی ہیں؟

جیو ڈیجیٹل کے اس سوال پر کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری، ظلم و زیادتی کے بڑھتے ان واقعات کی روک تھام کے لیے کیا کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟ اداکار احسن خان نے جواب دیا کہ میڈیا کے ذریعے، مثلا فلمز، ٹی وی یا ٹاک شوز کسی بھی نظریے کو قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، دنیا بھر کے سیاستدان یہ کررہے ہیں ۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے اسکرپٹس یا ہمارے ٹی وی شوز میں کی جانے والی بات کا بڑا اثر ہوتا ہے،

اداکار نے مزید کہا کہ چینل مالکان، پروڈیوسر اور ایکٹرز کے لئے باقاعدہ ایک پالیسی ہونی چایئے جس میں اصلاحی کام کرنے پر زیادہ زور دیا جائے ۔

جیو ڈیجیٹل سے خصوصی گفتگو میں اداکارہ و سماجی کارکن نادیہ جمیل نے کہا کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری تشدد، قتل، زیادتی جیسے مسائل کے سلسلے میں چلنے والی آگاہی مہم کا حصہ بن سکتی ہے لیکن اس کے لیے اسکرپٹ میں سے پہلے تھپڑ مارنے والے ہیرو کو نکالنا ہوگا ،انہوں نے کہا کہ ہیروئن کو تھپڑ مار کر آپ ویلن بنتے ہیں، ہیرو نہیں !

نادیہ نے کہا کہ رائٹرز کو خواتین کی خودمختاری پر مبنی کہانیوں کو زیادہ سے زیادہ منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔

شوبز شخصیات کو سماجی مسائل پر بولنے کی ضرورت کیوں؟

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئربیورو گورنمنٹ آف پنجاب کی سربراہ سارہ احمد نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ جب بھی ظلم و زیادتی کے بارے میں شوبز کی شخصیات بات کرتی ہیں تو ان کو زیادہ سنا جاتا ہے کیونکہ لوگ ان کو دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں، اسٹارز کے ذریعے آگاہی فراہم کرنا زیادہ آسان ہے ،  ان کی ایک پوسٹ بھی اثر رکھتی ہے اسی لیے نادیہ جمیل اور اداکار احسن خان بطور گڈ ول ایمبیسڈر ان واقعات کی روک تھام میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

 سارہ نے کہا کہ سندھ میں موجود چائلڈ پروٹیکشن بیورو فعال نہیں ہے اس معاملے پر وزیر اعلی سندھ مقبول باقر سے بھی بات چیت کی ہے جس کا انہوں نے مثبت جواب دیا ہے ۔

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے پاکستان میں بڑھتے چائلڈ اور ہیومن ٹریفیکنگ کے واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں چائلڈ ٹریفیکنگ اور ہیومن ٹریفیکنگ کے واقعات دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہولناک مانے جاتے ہیں۔

کوثر عباس نے کہا کہ  جو 2018 میں پاس ہونے والے قانون، پریوینشن آف ٹریفیکنگ ان پرسنز ایکٹ کے تحت رجسڑڈ ہونے چاہئیں اس میں سب سے کلیدی کردار عالی عدلیہ کو نبھانے کی ضرورت ہے ۔

 انہوں نے کہا کہ پورے سندھ میں 8 مہینوں کے دوران چائلڈ لیبر کے تحت رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 2 ہے ،  یہ سوچنے والی بات ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟؟

کوثر نے مزید کہا کہ شوبز شخصیات کا اس میدان میں کھل کر سامنے آنا اور بات کرنا ایک اچھا قدم ہے جس سے ان مسائل کے خاتمے کی امید رکھی جاسکتی ہے ۔


مزید خبریں :