پاکستان
07 جنوری ، 2013

کراچی امن و امان کیس کے عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا، چیف جسٹس

کراچی امن و امان کیس کے عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا، چیف جسٹس

اسلام آباد … چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود کراچی امن و امان کیس کے عدالتی فیصلے پر سندھ حکومت نے عمل نہیں کیا، توہین عدالت جائز ہے، حکومت نے تماشا بنایا ہوا ہے ، ایک سال بعد بھی کراچی کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ کراچی امن وامان کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رینجرز اور پولیس نے ذمہ داری اٹھائی تھی کہ کراچی میں نوگو ایریاز ختم کئے جائیں گے، کیا یہ ختم ہو گئے؟، کیا پولیس میں سیاسی طور پربھرتی ہونیوالا کوئی فرد نہیں؟، کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کیلئے قانون سازی کیوں نہیں کی گئی، فرقہ وارانہ قتل و غارت پر پولیس کیا کر رہی ہے؟ کیا سیاسی جماعت میں شدت پسند ونگ ختم کرنے کیلئے خط لکھا گیا؟ کیا عدالتی فیصلے پر 100 فیصد عمل اور کراچی میں امن بحال ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 14 دسمبر کے حکم نامے میں پوچھا تھا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ دوبارہ کیوں تیز ہو گئی ہے، عدالت کے اس سوال کا جواب نہیں آیا، عدالت نہیں چاہتی کہ شہر میں بھتہ خوری ہو اور بوری بند لاشیں ملیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی ہے، شولڈر پروموشن حاصل کرنیوالے 5 ہزار اہلکاروں کی تنزلی کردی گئی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھا کیا اس عمل سے پولیس سیاست سے پاک ہوگئی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اب سیاسی بنیادوں پر تقرریاں نہیں کی جا رہیں اور ایسے 1500 اہلکاروں کو ان کے متعلقہ محکموں میں بھجوا دیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کراچی میں ایک صحافی کے قتل کے تمام گواہوں کو چن چن کر قتل کردیا گیا، گواہوں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے 254 پولیس اہلکار مارے گئے، ان میں سے 240 پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ کو معاوضہ دیدیا گیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ254 اہلکار مارے گئے اور کوئی قاتل نہیں پکڑا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا کراچی میں بھتہ خوری کا کاروبار ختم ہوگیا ہے ؟ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری وسیم احمد نے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد بھتا خوری میں بتدریج کمی آئی ہے، پہلے 10 شکایات آتی تھیں تو اب صرف 2 آتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کاروباری شخصیات نے سمجھوتہ کر لیا ہو گاکہ پولیس تو کچھ نہیں کر رہی لہٰذا چپ ہو جاوٴ، کراچی والے یہاں بیٹھے ہیں، وہ ہی بتائیں۔ اس پر عدالت میں موجود ایم کیو ایم کے رہنماوٴں نے ہاتھ ہلا ہلا کر کہا کہ کراچی میں بھتا خوری ختم نہیں ہوئی۔ کیس میں فریق بننے کی اجازت ملنے پر محمود اختر نقوی نے عدالت کو بتایا کہ آوٴٹ آف ٹرن ترقی پانیوالا سپاہی وسیم بیٹر کراچی میں بھتا خوری، جوئے کے اڈے چلانے، پولیس افسران کی تقرریاں کرانے، افسران کو رشوت کی رقم پہنچانے اور ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں بھی ملوث ہے۔ آئی جی سندھ فیاض لغاری نے اسے اپنا بیٹا بنا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی کے سوا کسی کی جرأت نہیں ہوئی کہ وسیم بیٹر کا نام لے سکے۔ ڈی آئی جی کرائم سرکل بشیر میمن نے عدالت کے سامنے وسیم بیٹر کے طاقتور ہونے کا اعتراف کیا اور کہا کہ انہیں یہ ہمت انیتا تراب کیس میں عدالتی فیصلے سے ملی۔ محمود اختر نقوی نے کہا کہ محکمہ ریونیو میں غیر قانونی کاموں کے پیچھے ایک شخص اویس ٹپی کا ہاتھ ہے، شاہ زیب کیس میں درخشاں تھانے کا ڈی ایس پی اویس ٹپی نے لگوایا، جو پہلے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا واقعی وہ پہلے ای ٹی او تھا۔ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری سندھ نے اعتراف کیا کہ جی ہاں یہ بات درست ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیسے کہہ رہے تھے کہ تمام سیاسی تقرریاں ختم کر دی گئی ہیں، کراچی کو بچانا ہے تو دیانت داری سے کوششیں کرنا ہوں گی، کراچی میں جیسے قتل و غارت ہو رہی ہے، سمجھ نہیں آتی کہ آئی جی کیسے سوتا ہو گا۔

مزید خبریں :