10 اکتوبر ، 2023
اسلام آباد: عالمی بینک نے پاکستان سے کہا ہے کہ تنخواہ دار اور غیرتنخواہ دار طبقے کی ٹیکس کی حدیں برابر کر دی جائیں تاکہ ذاتی انکم ٹیکس کو پروگریسو بنایا جائےاور زرعی آمدن اور املاک کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔
ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ زرعی آمدن اور املاک پر ٹیکس اگر موزوں طریقے سے لگایاجائے تو سالانہ بنیادوں پر اس سے جی ڈی پی کے تین فیصد کے قریب ٹیکس جمع ہوسکتا ہے اور اس سے سالانہ 30 کھرب روپے سے زائد ٹیکس جمع ہوسکتا ہے۔
ورلڈ بینک رائز ٹو سے پاکستان کےلیے 350 ملین ڈالر کی توقع بھی کررہا ہے تاہم اس کی منظوری کےلیے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کی تاریخ کی ابھی کوئی تصدیق نہیں ہوپائی۔
سردست تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس دہلیز 6 لاکھ روپے سالانہ ہے اور اس سے اوپر تنخواہ پر ٹیکس لیاجاتا ہےجب کہ غیر تنخواہ دار طبقے کےلیے آمدن کی یہ حد 4 لاکھ روپے سالانہ ہے۔
پاکستان ایک بہت ہی مشکل صورتحال کا شکار ہے اور اس کا مالیاتی خسارہ ایسا ہے کہ معیشت پائیدار نہیں رہ سکتی چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ایک طرف آمدن بڑھائی جائے اور دوسری جانب اخراجات میں تخفیف کی جائے۔
ورلڈبینک کے پاکستان میں چیف اکنامسٹ توبیاس حق نے پیر کو چند منتخب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم امیروں اور دولت مندوں پر ٹیکس لگاتے ہوئے غریبوں کو تحفظ دینے کی سفارش کر رہے ہیں، اس موقع پر عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجے بین ہاسین بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک یقیناً کم سے کم موجودہ دہلیز میں تخفیف کی سفارش نہیں کررہا، ہم سفارش کررہے ہیں کہ پاکستان اپنے انکم ٹیکس اسٹرکچر کو سادہ بنائے اور تنخواہ دار اورغیر تنخواہ دار طبقے کےلیے ایک سا ٹیکس نظام مرتب کرے اور ترقی پسندی کو یقینی بنائے۔
سابقہ تجزیے میں عوامی اخراجات پر نظر ثانی کےلیے 2019 کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ریفارم شدہ انکم ٹیکس اسٹرکچر کے حوالے سے تنخواہ دار طبقے کےلیے کم سے کم استثنیٰ کی حدکو شامل کیاجاسکتا ہے لیکن اس تجزیہ میں حالیہ مہنگائی اور لیبر مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ کم آمدن کے طبقات متاثر نہ ہوں۔
پاکستان کی ترقی کے اپ ڈیٹ میں سفارشات واضح ہورہی ہیں، البتہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا عالمی بینک تنخواہ دار اور بغیرتنخواہ والے افراد کےلیے ایک سا انکم ٹیکس اسٹرکچر تجویز کر رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔