264 گھنٹے تک جاگنے کا ریکارڈ بنانے والے شخص کو پھر کن اثرات کا سامنا ہوا؟

رینڈی گارڈنر / سوشل میڈیا فوٹو
رینڈی گارڈنر / سوشل میڈیا فوٹو

ہم سب کو معلوم ہے کہ ایک رات کی خراب نیند ہمارے مزاج کو کتنا متاثر کرتی ہے۔

مگر تصور کریں کہ اگر کوئی فرد صرف یہ دیکھنے کے لیے نیند سے دوری اختیار کرلے کہ اس سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟

یقین کرنا مشکل ہوگا مگر 1963 میں رینڈی گارڈنر نامی ایک فرد نے ایسا کیا تھا۔

امریکا سے تعلق رکھنے والے رینڈی گارڈنر کی عمر اس وقت 17 سال تھی اور ایک اسکول سائنس فیئر کے دوران انہیں اور ان کے دوست بروس میک ایلسٹر کو اس کا خیال آیا تھا۔

درحقیقت یہ دونوں بیدار رہنے کا عالمی ریکارڈ توڑنا چاہتے تھے اور ٹاس کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ یہ کام کون کرے گا۔

بروس میک ایلسٹر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 'ہم دونوں احمق تھے اور میں بھی رینڈی پر نظر رکھنے کے لیے کئی راتوں تک جاگتا رہا'۔

انہوں نے بتایا کہ '3 راتوں تک جاگنے کے بعد میری ایسی حالت ہوگئی تھی کہ دیوار پر نوٹس لکھنے لگا تھا'۔

اس تجربے کی نگرانی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک محقق ڈاکٹر ولیم ڈیمینٹ اور امریکی بحریہ کے طبی عملے میں شامل جان جے روس نے کی۔

بے خوابی کا اثر دوسرے دن ہی اس وقت نظر آنے لگا جب رینڈی گارڈنر کو بولنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔

نیند سے دوری کو 3 دن ہونے پر رینڈی گارڈنر چڑچڑے ہوگئے، توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا جبکہ مختصر المدت یادداشت متاثر ہوئی۔

ڈاکٹر ولیم ڈیمینٹ کے مطابق رینڈی گارڈنر جسمانی طور پر فٹ تھا، مگر اس کا حال یہ تھا کہ اگر وہ آنکھیں بند کرتا تو فوراً ہی سو جاتا۔

مجموعی طور پر رینڈی گارڈنر 264.4 گھنٹے یعنی 11 دن سے زائد وقت تک بیدار رہے اور اس کے بعد 14 گھنٹے تک سوتے رہے۔

مگر یہ تجربہ ان کے لیے بھاری ثابت ہوا اور بعد میں بھی سونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا رہا۔

ایک انٹرویو میں رینڈی گارڈنر نے بتایا کہ اس تجربے کے دہائیوں بعد بھی انہیں بے خوابی کا سامنا ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'اب بھی میرے لیے سونا مشکل ہوتا ہے اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ دہائیوں پہلے میں نے بہت بڑی غلطی کی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سائنس پراجیکٹ نے تاریخ ضرور رقم کی مگر نیند سے دوری کبھی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔

مزید خبریں :