13 جنوری ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…برطانوی جریدہ ”اکنامسٹ“ لکھتا ہے کہ طاہر القادری نے جان بوجھ کر ایسے مطالبے پیش کیے جو کبھی پورے نہیں ہوسکتے۔کئی حلقوں میں قیاس آرائی ہے کہ طاہر القادری فوجی گھوڑے پر سوار ہو کر آئے ہیں۔انتخابات سے قبل شفاف سیاست کا مطالبہ مناسب ہے لیکن کئی شکوک شبہا ت بھی پیدا ہوتے ہیں ، لانگ مارچ کے ذریعے ان کے دباوٴ کا مقصد نگران حکومت کی تشکیل پر اثر انداز ہونا ہے۔حکومتی اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو خدشہ ہے کہ فوجی حمایت یافتہ عبوری حکومت انتخابات نہ کرانے کا بہانہ تلاش کرے گی۔ سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کی طاہر القادری کی خواہش ”راولپنڈی “کی بھی خواہش رہی ہے۔ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے مخالف طاہر القادری بھی ہیں اور اس پر فوج کو بھی تشویش ہے۔ فوج کے ساتھ ساتھ طاہر القادری کے مغرب سے بھی روابط کی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے۔امکان ہے کہ امریکا ،برطانیہ یا دیگرعالمی طاقتیں افغانستان کے سیاسی تصفیے تک پاک فوج کا ساتھ دینا چاہتی ہیں۔تاہم فوج اور امریکا طاہر القادری سے کسی بھی قسم کے روابط کی نفی کر چکے ہیں۔جریدہ لکھتا ہے کہ طاہر القادری اسلام آباد پہنچنے کے بعد شرکاء کو مطالبات کی منظوری تک دھرنا دینے کا کہہ دیں گے، حکام اسلام آباد کو پہلے ہی سیل کر چکے ہیں ، سخت سردی میں صورت حال بے قابو ہو جائے گی، دہشت گردی کا حملہ ہونے کی صورت میں حالات خوفناک رخ اختیار کر جائیں گے ۔ناقدین کے نزدیک ایسی تمام خوفناک صورت حال پیدا کرنے کا مقصد انتخابات کے انعقاد کو ناممکن بنانا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ فوج نے سیاست سے اپنے کو دور رکھنے کا عہد کر رکھا ہے لیکن ممکن ہے کہ راولپنڈی زرداری کی خراب طرزحکمرانی اور معاشی بدحالی پر تشویش کا شکار ہو۔جنرلوں کابڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آصف زرداری سے جتنی نفرت کرتے ہیں ،ان کے متبادل نواز شریف سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں۔اس لئے یہ ایک نظریہ بھی پروان چڑھ چکا ہے کہ فوج ایک مختلف اور بہتر متبادل” سویلین اوتار“ کی تلاش میں ہے،یہ نظریہ زیر گردش ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت تشکیل دی جائے۔اگر واقعی طاہر القادری کے پیچھے فوج ہے تو اس ملک کی سیاسی تاریخ کا افسوس ناک موڑ ہو گا اور پاکستان میں تاریخ کی دوبارہ بھیانک غلطی ہونے جا رہی ہے۔تفصیلی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا گیا کہ پاکستانی سیاست میں سب سے اہم سوال اس وقت یہ زیر گردش ہے جس کا کسی کے پاس بھی کوئی واضح جواب نہیں کہ طاہر القادری کی حقیقت کیا ہے اور اسے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ایسا مذہبی رہنما جس کا سیاسی ماضی معمولی قد کاٹھ کا تھا،2006ء سے کینیڈا میں قیام کرنے اور کینیڈین شہریت حاصل کرنے کے بعد گزشتہ ماہ پاکستان پہنچ کر انہوں نے جمہوری نظام کی اصلاح کا مطالبہ کرکے سیاست میں ہیجان پیدا کردیا۔وہ سیاست سے مجرموں کوپاک کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو نکالنا چاہتے ہیں جن کی حکومت کے چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ طاہر القادری کے پاس لامحدود فنڈز اور بڑی تعداد میں پیروکار ہیں۔ وہ انتخابی آمریت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔تاہم حکومت کا تختہ الٹنے کی باتوں سیطاہر القادری انکار کرتے ہیں لیکن وہ اسلام آباد کو تحریر اسکوائر بنانا چاہتے ہیں۔جریدے کے مطابق مصر کے برعکس پاکستان میں پہلے ہی منتخب حکومت ہے، اور موسم گرما میں انتخاب ہونے والے ہیں۔طاہر القادری انتخابات سے قبل تمام اصلاحات اور اقدامات چاہتے ہیں۔ اگر مقررہ مدت پر انتخابا ت ہوئے تو یہ پاکستان میں پہلی بار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت منتقل ہوگی۔پاکستانی تاریخ میں یہ وقت بہت اہم ہے جس کی نصف تاریخ فوجی حکومتوں سے بھری پڑی ہے۔ طاہر القادری کا اچانک سامنے آنا پاکستان کے سیاسی اور دیگر حلقوں میں کئی چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا سبب بنا ہے۔پاکستان میں مختلف ادوار میں فوج براہ راست یا بالواستہ اقتدار پر براجمان رہی ہے۔جنہوں نے فوجی اقتدار کے اس وطیرے کو قریب سے دیکھا ہے ، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ طاہر القادری کا اوتار فوجی گھوڑے پر سوار ہے۔تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں، لیکن طاہر القادری کا مظہر عجیب ضرور ہے۔رپورٹ کے مطابق آغاز میں ان کی تنظیم اپنی آمدنی کے کسی بھی ذرائع کو بتانے سے گریزاں تھی۔ لانگ مارچ کے لئے ٹیلی ویژن چینل میں اشتہارات،بل بورڈز اور پوسٹرز استعمال کیے گئے،لاہور کا شو بھی مہنگا تھاا ور اسلام آباد کابھی مہنگا ہے صرف50ہزار بسیں کرائے پر لی گئی۔