کوٹ کے یہ دلچسپ راز جانتے ہیں؟

اکثر کوٹ کی جیب بند کیوں ہوتی ہے / فائل فوٹو
اکثر کوٹ کی جیب بند کیوں ہوتی ہے / فائل فوٹو

کوٹ کا استعمال تو اب دنیا بھر میں لوگ کرتے ہیں مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس جیکٹ (جی ہاں واقعی کوٹ کو سوٹ جیکٹ کہا جاتا ہے) میں کئی بار جیب کو سی کر بند کیوں کر دیا جاتا ہے۔

جی ہاں واقعی ایسا متعدد بار ہوتا ہے کہ بظاہر تو جیب نظر آرہی ہوتی ہے مگر وہ بس زیبائشی ہوتی ہے اور اوپر سے اسے سی دیا جاتا ہے۔

مگر اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟

اس کی وجہ کافی دلچسپ ہے اور 19 ویں صدی میں چھپی ہوئی ہے۔

اس عہد میں زیادہ تر سوٹ ہاتھ سے تیار کیے جاتے تھے اور اس کے لیے کافی وقت لگتا تھا۔

مگر پھر ریڈی میڈ سوٹ تیار ہونے لگے تو کوٹ کی ساخت کو برقرار رکھنے کے لیے گلیو کا استعمال ہونے لگا تاکہ ان کو جلد تیار کیا جا سکے جبکہ قیمت بھی کم ہو۔

مگر ریڈی میڈ سوٹ دیکھنے میں تو اچھے ہوتے تھے مگر ان کی جیبیں وزن سے پھٹ کر الگ ہو جاتی تھیں۔

یہی وجہ تھی کہ ان جیبوں کو سی دیا جاتا تھا تاکہ کوئی ان کو استعمال نہ کرسکے اور سوٹ کو زیادہ عرصے تک استعمال کیا جاسکے۔

کوٹ کے پچھلے حصے کو کاٹا کیوں جاتا ہے؟

کیا آپ کو وجہ معلوم ہے / فائل فوٹو
کیا آپ کو وجہ معلوم ہے / فائل فوٹو

یہ کوٹ کا ایک اہم ڈیزائن فیچر ہے جسے سوٹ وینٹ کہا جاتا ہے مگر اس کی موجودگی کی وجہ کیا ہے؟

یہ عمودی لکیر کوٹ کے بیک پر ایک یا 2 جگہ ہوتی ہے۔

تو سوٹ وینٹ کا استعمال اس عہد میں شروع ہوا تھاجب لوگ گھڑ سواری کے عادی تھے۔

سوٹ وینٹ سے اس زمانے میں لوگوں کو آسانی سے نقل و حرکت کرنے کا موقع ملتا تھا جبکہ گھوڑے کی زین پر بیٹھنے کے بعد یہ خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ کوٹ پھٹ جائے گا۔

موجودہ عہد میں گھڑسواری تو بہت زیادہ عام نہیں مگر یہ فیچر اب بھی اہم ہے کیونکہ اس سے چلتے پھرتے یا بیٹھنے کے دوران کوٹ تنگ ہونے کا احساس نہیں ہوتا جبکہ پینٹ کی جیبوں تک رسائی بھی آسان ہوتی ہے۔

کوٹ کا نچلا بٹن بند نہ کرنے کی وجہ جانتے ہیں؟

اس کی وجہ کافی دلچسپ ہے / فائل فوٹو
اس کی وجہ کافی دلچسپ ہے / فائل فوٹو

کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوٹ پہننے کے بعد اس کا نچلا بٹن بند نہیں کرنا چاہیے؟

درحقیقت یہ کوٹ پہننے کا ایسا غیر تحریری اصول ہے جس کی تاریخ ایک صدی یا اس سے زیادہ پرانی ہے۔

اس اصول کے مطابق کوٹ میں 2 بٹن ہو یا 3، آخری بٹن کو کھلا رکھنا چاہیے اور اوپر کے 2 یا ایک بٹن کو بند کرنا چاہیے۔

تو یہ روایت کہاں سے سامنے آئی؟

کچھ ماہرین برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم (1901 سے 1910 تک برطانیہ کے بادشاہ رہے) کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

روایات کے مطابق ایڈورڈ ہفتم اتنے موٹے تھے کہ ان کے لیے کوٹ کے سب بٹن بند کرنا ممکن نہیں رہا تو وہ آخری بٹن کو کھلا رکھتے تھے۔

مگر کچھ ماہرین کے مطابق یہ جزوی حقیقت ہوسکتی ہے اور اس کہانی کو گزرے برسوں میں کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔

برطانیہ کے فیشن ڈیزائنر سر ہارڈی امائز کے مطابق کوٹ کے آخری بٹن کو نہ لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اس جیکٹ کو گھڑسواری کے لیے استعمال ہونے والی جیکٹ کی جگہ دی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ عہد کے سوٹ 1906 میں ایڈورڈ ہفتم کے دور میں متعارف کرائے گئے تھے اور انہیں لاؤنج سوٹ کا نام دیا گیا۔

لاؤنج سوٹ نے گھڑسواری کے روایتی کوٹ کی جگہ لیے تو ان کا آخری بٹن بند نہیں کیا جاتا تھا تاکہ لوگوں کو گھوڑے پر بیٹھنے کے بعد مشکل کا سامنا نہ ہو۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایڈورڈ ہفتم نے بھی موٹاپے کے باعث اس رجحان کو اپنالیا اور سب لوگ بادشاہ کی نقل کرنے لگے۔

بتدریج یہ اصول برطانیہ سے باہر پوری دنیا تک پھیل گیا۔

مزید خبریں :