06 نومبر ، 2023
آڈیو لیکس کیس میں وزیراعظم آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرایا ہے کہ شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے لیگل فریم ورک موجود ہے، وزیراعظم آفس انٹیلی جنس ایجنسیز کے حساس روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، ایسا کرنا قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالتی سوالات پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری جواب جمع کرا دیا جس میں کہا گیا ہے عدالت نے سوال پوچھا تھا کہ کس ایجنسی کے پاس شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟
جواب میں کہا گیا ہے کہ انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے کا میکنزم فراہم کرتا ہے، وزیراعظم آفس کا انٹیلی جنس ایجنسیز کے کام اور آپریشنز کی تفصیل میں جانا ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے والی انٹیلی جنس ایجنسیز کے مفاد میں نہیں۔
تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ شہریوں کی قانون کے مطابق ریکارڈ کی گئی گفتگو کو خفیہ رکھنا اور لیک ہونے سے روکنے کو یقینی بنانا ضروری ہے، اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ ریکارڈ کی گئی گفتگو کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے، ٹیلی گراف ایکٹ 1885 میں بھی پیغامات پڑھنے کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت سے اجازت کو لازم قرار دیا گیا ہے، پیکا آرڈی نینس اور رولز کے تحت بھی حاصل کیے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کو خفیہ رکھنا لازم ہے۔
عدالت نے سوال پوچھا کہ شہریوں کی گفتگو کس نے ریکارڈ اور لیک کیں؟ تحقیقات کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کی ٹیلی فون پر کی گئی گفتگو ریکارڈ کر کے لیک کرنے کا معاملہ وفاقی حکومت کے علم میں ہے، وفاقی حکومت نے سینیئر ججز پر مشتمل اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا، انکوائری کمیشن لیک کی گئی آڈیوز کے مصدقہ ہونے کی انکوائری کرے گا۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان کے بیٹے نجم الثاقب نے آڈیو لیکس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی جبکہ بشریٰ بی بی نے توشہ خانہ تحائف سے متعلق ذلفی بخاری سے گفتگو کی آڈیو لیک ہونے پر ایف آئی اے میں طلبی کے نوٹس کو چیلنج کر رکھا ہے۔
عدالت نے پٹیشنرز کو طلب کیے جانے والے نوٹسز معطل کر کے کیس 11 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔