06 دسمبر ، 2023
عمر میں اضافہ تو ایسا عمل ہے جس کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہیں اور ہر گزرتے برس کے ساتھ بڑھاپے کے آثار قدرتی طور پر نمایاں ہوتے ہیں۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی چند عادات سے بھی بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہو جاتا ہے؟
جی ہاں واقعی ان عادات کے نتیجے میں درمیانی عمر میں ہی بڑھاپا ظاہر ہونے لگتا ہے۔
یہ وہ عادات ہیں جو روزمرہ کے معمولات کا حصہ ہوتی ہیں اور اکثر افراد ان پر غور بھی نہیں کرتے۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ڈپریشن سے جسمانی و ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ دماغ سکڑنے سے بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہو جاتا ہے۔
جسمانی صحت کی طرح دماغی صحت بھی بہت اہم ہوتی ہے اور ڈپریشن کا سامنا ہونے پر ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہیے۔
آپ زیادہ وقت چار دیواری کے اندر گزارتے ہیں تو بھی سن اسکرین کا روزانہ استعمال کرنا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق سورج کی روشنی جِلد کی عمر پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
تو اگر آپ قبل از وقت جھریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو روزانہ سن اسکرین کا استعمال ضرور کریں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ کبھی کبھار تمباکو نوشی سے صحت پر مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے، تو یہ خیال غلط ہے۔
تمباکو میں ہزاروں ایسے کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو جِلد کے ٹشوز کو نقصان پہنچاتے ہیں اور قبل از وقت بڑھاپے کا شکار بنا دیتے ہیں۔
تمباکو نوشی سے جِلد کی لچک بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
لوگوں سے اچھے تعلقات عمر میں اضافے کی رفتار سست کرتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ اچھے سماجی تعلقات سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
درحقیقت ہر مہینے ایک بار بھی دوستوں کے ساتھ گھومنے سے جلد بڑھاپے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
چائے یا کافی بیشتر افراد کے پسندیدہ مشروبات ہیں اور صحت کے لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔
مگر ان کا بہت زیادہ استعمال ضرور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان کے زیادہ استعمال سے وہ ہارمونز متاثر ہوتے ہیں جو شخصیت کو جوان دکھانے اور ورم کو کم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
لوگوں کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا انداز بھی جلد بڑھاپے کا شکار بنا سکتا ہے۔
اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ یا ٹیبلیٹ استعمال کرتے ہوئے بیشتر افراد اپنی کمر کو آگے جھکائے رکھتے ہیں جس سے ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھتا ہے۔
اس کے نتیجے میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت متاثر ہوتی ہے اور جوڑوں کے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جنک یا فاسٹ فوڈ کھانے کا شوق بڑھاپے کی جانب سفر بہت تیز کر دیتا ہے۔
جنک فوڈ میں موجود چکنائی، مٹھاس، نمک اور دیگر اجزا سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں اور گریوں کا زیادہ استعمال عمر بڑھنے سے جسم پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی روک تھام کرتا ہے۔
پلاسٹک اسٹرا کے استعمال سے بھی لوگ جلد بوڑھے ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب آپ اکثر اسٹرا کے ذریعے مشروب کو پیتے ہیں تو ہونٹوں پر لکیریں ابھرتی ہیں جبکہ منہ کے اردگرد جھریاں نظر آنے لگتی ہیں۔
اگر آپ اپنی آنکھوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو سن گلاسز کا استعمال ضرور کریں۔
اس سے نہ صرف آنکھوں کے اردگرد جھریوں کی روک تھام ہوتی ہے بلکہ بینائی کے مختلف مسائل سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ہر ہفتے کئی بار بہت زیادہ مقدار میں کھانا کھانے سے بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہو جاتا ہے۔
اس عادت کے نتیجے میں خلیات پر تکسیدی تناؤ بڑھتا ہے جس سے مختلف جسمانی افعال متاثر ہوتے ہیں۔
زیادہ کھانے کے نتیجے میں جسم کو غذا ہضم کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے اور میٹابولزم کی رفتار متاثر ہوتی ہے، جس سے موٹاپے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ورزش نہ کرنا یا جسمانی سرگرمیوں سے دوری کے نتیجے میں قبل از وقت بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہو جاتا ہے۔
ہر ہفتے کم از کم 3 بار تیز رفتاری سے چہل قدمی کرنے سے بھی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
عمر بڑھنے کے اولین اثرات عموماً دانتوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ روزانہ دانتوں پر برش اور خلال کرنا ضروری ہے تاکہ دانت صحت مند رہیں۔
صحت مند دانتوں سے لوگ زیادہ جوان نظر آتے ہیں۔
اکثر خواتین کم عمر نظر آنے کے لیے میک اپ کا استعمال کرتی ہیں مگر بہت زیادہ میک اپ استعمال کرنے سے جِلد کا بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق زیادہ میک اپ سے جِلدی مسام بند ہو جاتے ہیں اور جِلد کو تحفظ فراہم کرنے والی قدرتی نمی متاثر ہوتی ہے، ان دونوں عناصر سے قبل از وقت جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
کم چکنائی والی غذاؤں کے استعمال سے جسمانی وزن میں ممکنہ کمی آسکتی ہے مگر اس سے بڑھاپے کی جانب سفر بھی تیز ہو جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق اومیگا 3 فیٹی ایسڈز سے بھرپور غذائیں جیسے مچھلی اور گریوں کے استعمال سے قبل از وقت بڑھاپے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
مسلز کی مضبوطی اور بڑھاپے کی جانب سفر کے درمیان تعلق موجود ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق مسلز کو مضبوط رکھنے سے دل، دماغ اور ہڈیوں کو تحفظ ملتا ہے، جس سے جوان نظر آنے میں مدد ملتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔