12 دسمبر ، 2023
گزشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر سے متعلق انصاف کا قتل کر کے رہی سہی کالک بھی اپنے چہرے پر مل لی ہے، بھارت بہ حیثیتِ ملک کس قدر جھوٹا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو خود کشمیر کا مقدمہ لے کر اقوام متحدہ پہنچے، اس بڑے عالمی فورم کے سامنے خود انہوں نے اقرار کیا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور ہم کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیں گے، رائے کے اس حق کے تحت وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیں یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہیں، یہ ان کی مرضی ہو گی۔
افسوس کہ کشمیری 75برسوں سے تڑپ رہے ہیں اور بھارت ابھی تک اپنے پہلے وزیراعظم کے قول پر پورا نہیں اترا اور اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے تو دوسری طرف انصاف کا قتل ہے۔ ہو سکتا ہے یہ فیصلہ ہندوؤں کی متعصب پارٹی بی جے پی کو الیکشن جتوانے کیلئے دیا گیا ہو مگر یہ فیصلہ دنیا کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اس مرحلے پر اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ یہ مقدمہ سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت انصاف میں اٹھائے۔ اسی طرح اس نا انصافی پر OIC کو بھی متحرک ہونا چاہیے۔ دنیا کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت 75سال تک دنیا سے جھوٹ بولتا رہا، اس جھوٹ کا آغاز بھارت کے پہلے وزیراعظم نہرو نے کیا تھا، اب جب بھارت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا ہے تو اقوام متحدہ اور دنیا کو بھارت سے حساب لیناچاہیے۔ بھارت اپنے لوگوں پر طویل عرصے سے ظلم و ستم کر رہا ہے، اقلیتوں کے ساتھ ظلم اور نا انصافی اس کا چلن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں کوئی بھی اقلیت خوش نہیں ہے، سکھوں کے گوردواروں کی بے حرمتی آپ کے سامنے ہے، کس طرح جون 1984ء میں گوردوارہ دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل )پر بھارتی فوج اور پولیس نے دھاوا بولا، قتل عام کیا، 1984ء سے لیکر 1994 ء تک دس سال میں 10 لاکھ سکھ نو جوانوں کو قتل کیا گیا۔ بھارتی پنجاب میں منشیات کا زہر پھیلانے میں بھارتی ایجنسیوں کا کردار ہے۔ دلت، جانوروں کی سی زندگی گزارتے ہیں اور کشمیری قیدیوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔
بھارت میں پندرہ سولہ ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں کیوں چل رہی ہیں، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان میں ظلم اور نا انصافی عام ہے۔چند مغربی قوتوں کی تھپکیوں کے بعد ہندوستان نے عالمی سطح پر اپنا زہر پھیلانا شروع کیا۔ ہم تو بڑے عرصے سے کہہ رہے تھے کہ بھارت، افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے مگر ہماری بات کو دنیا یہ سمجھتی رہی کہ ہم روایتی حریف ہیں شاید اس لئے یہ بات کر رہے ہیں مگرحال ہی میں جب کینیڈا میں آزادی پسند سکھ رہنما کا قتل ہوا تو دنیا حرکت میں آئی، کینیڈین حکومت نے تہہ تک جانے کا فیصلہ کیا اور پھر پانچ آئیز نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ عظیم آزادی پسند سکھ رہنما کے قتل میں را ملوث ہے، یہاں پانچ آئیز سے مراد پانچ ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، ان ملکوں میں کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اب ثابت یہ ہوا کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ابھی اس قتل کا چرچا جاری تھا کہ بھارت میں کرکٹ کا میلہ سج گیا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہر میچ میں سازش کی پچ تیار کی جاتی رہی، انہی سازشوں کے بل بوتے پر بھارت فائنل میں پہنچ گیا، بہت بڑے اسٹیڈیم میں غرور سے بھرے ہوئے بھارتی اپنے پرچم کو سب سے بلند دیکھنے کے لئے جمع ہوئے مگر فائنل میں آسٹریلینز نے پچ پر اتنا پہرہ دیا کہ بھارت کے لئے ٹرافی حاصل کرنا مشکل بنا دیا، یوں پچ کی سازش فائنل ہار گئی کیونکہ یہ میچ عالمی میڈیا دکھا رہا تھا، اس لئے پوری دنیا نے ٹرافی دیتے وقت مودی کا رویہ دیکھا، وہ کس طرح آسٹریلوی کپتان کے ہاتھوں میں ٹرافی پھینک کر بھاگا، اس پر آسٹریلوی کپتان ششدر رہ گیا، دنیا حیرت سے مودی کا رویہ اور آسٹریلوی کپتان کا چہرہ تکتی رہی۔ بھارت عالمی دہشت گرد تو تھا ہی، کھیل کے میدان میں بھی دہشت گرد ثابت ہوا۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ کے انتخاب ہوئے ہیں جہاں پاکستان نے بھارت کو 18 ووٹوں کے مقابلے میں 38ووٹوں سے شکست دی ہے، پاکستان یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ کا وائس چیئرپرسن بن گیا ہے۔ اب جب تین چار حوالوں سے بھارت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے، کشمیر سے متعلق تازہ ترین فیصلے نے اس کے جھوٹا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے تو بھارت کے لئے یہ مشکل ہو گیا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنا کون سا روپ پیش کرے۔ اس مرحلے پر مجھے عائشہ مسعود ملک کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
ہے بہت دشوار عاشی آئینے کا سامنا
کون سا چہرہ کرو گے آئینے کے سامنے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔