16 دسمبر ، 2023
ترک قوم کو میں ایک مسلمان ملک کے عوام اور اسلامی تعلق کی بنیاد پر ہی جانتا، سمجھتا اور پرکھتا تھا لیکن حالیہ دنوں ترکیہ کے دورے کے دوران ہونے والے حیران کن انکشافات نے ترک قوم اور اس کی حکومت کی پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے جذبے نے میری سوچ یکسر بدل کر رکھ دی۔
پاکستان میں کم ہی لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم بھی ہے جو پاکستانیوں سے بے لوث اور والہانہ محبت اور عقیدت رکھتی ہے، ایک ایسی قوم جو ہر اچھے برے وقت میں پاکستانی عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہے، پاکستانی قوم کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتی ہے اور پاکستان کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھتی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ پاکستان کے جید صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ ترکیہ جانے کا اتفاق ہوا، دارالحکومت انقرہ پہنچنے پر بتایا گیا کہ آپ کو ایک منفردپاکستانی یادگار کا دورہ کروانا ہے،سفر کی تھکاوٹ اور انتہائی سرد اور جما دینے والی سردی کے باعث ہمیں اس جگہ کی اہمیت اور وہاں کے وزٹ کا اندازہ نہ ہوا لیکن جب ہم 40 منٹ بعد انقرہ شہر سے چند کلومیٹر دور ایک ایسی پہاڑی پر پہنچے جہاں پاکستانی جھنڈا لہرا رہا تھا اس کے ساتھ ہی گھنے درختوں کا ایک چھوٹا سا باغ بھی تھا، قریب جا کر دیکھا تو مارے حیر ت کے میری آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہ گئیں۔
میرے ذہن میں 9 سال قبل یعنی 16 دسمبر 2014 کے ایک بد قسمت دن کی ساری بھیانک یادیں تازہ ہو گئیں، ایک ایسا دن جو پاکستانی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، اس دن معصوم و بے گناہ پاکستانی بچوں کااے پی ایس پشاور سکول میں بے دردی سے قتل عام کیا گیا، اس موقع پر وہاں موجود اساتذہ نے جس طرح اپنے بچوں کے تحفظ کرتے ہوئے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہیں کی اور بچوں کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا اور استاد اور شاگرد کے رشتے کو ایک نئی جہت دے دی وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔
میں جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے 9 سال پہلے خود اس جگہ موجود ہوں جہاں یہ خوفناک واقع رونما ہوا تھا، اچانک ہمارے میزبان نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا آپ کو حیر ت ہو رہی ہوگی کہ یہاں یہ سب کیسے؟
تو جناب یہ پشاور اے پی ایس سکول میں دہشت گردی کانشانہ بننے والے شہدا کی یاد گار ہے جو انقرہ کی مقامی حکومت نے ان شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے طور پر بنائی ہے، اس کے ساتھ ہی تمام 146 شہدا کے نام سے مختلف درخت لگا کر ایک باغ بھی بنایا گیا ہے اور ہر درخت پر ایک ایک شہید کے نام سے تختی لگا رکھی ہے، ان درختوں میں پرندوں کے گھونسلوں کی خصوصی طور پر جگہ بنائی گئی ہے جہاں ان پرندوں کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے۔
ترک حکومت کے نمائندے ہر سال اس جگہ جاتے ہیں اور ان شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے ہیں۔
مجھے ترکی میں پاکستان سفیر ڈاکٹر جنید نے بتایا کہ یہ یادگار ترک قوم کی طرف سے پاکستانی قوم سے والہانہ اور بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، یقین جانیے اس موقع پر میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے مجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا تھا کہ ہم بھی کتنی عجیب قوم ہیں ایک طرف دنیا ہمارے شہدا کو کس قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور دوسری طرف ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے اپنے ہی شہدا کی بے توقیری تک کر جاتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ دنیا میں کہیں اور بھی اس طرح کی یادگاریں بنی ہیں یا نہیں لیکن ترک قوم اور حکومت کا یہ جذبہ انمول ہے اور کسی بھی طور پر اپنی مثال آپ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔۔