Time 04 جنوری ، 2024
پاکستان

سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیاد پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھا دیے

ترجیحی بنیادوں پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ فوٹو فائل
ترجیحی بنیادوں پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ فوٹو فائل

سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیاد پر نوکریوں پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھا دیے۔

جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد میں بھرتی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کے پاس یہ اختیارہے کہ خود سے پالیسی تبدیل کریں؟ ایسی خیراتی پالیسیاں کیوں بنائی جاتی ہیں؟ اس طرح کی پالیسی بنا کر آئین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا ہمت پکڑیں اور وزیراعظم کو لکھیں کہ یہ پالیسی غلط ہے، ترجیحی بنیادوں پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا یہ پالیسی سابقہ حکومت کے دور میں بنی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پھر کہہ دیں کہ سابقہ حکومت آئین سے بالاتر تھی، ایسی پالیسی کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے، آئین ہر چیز سے بالاتر ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس معاملے پر حکومت سے ہدایات لینے کی استدعا کی جس پر سپریم کورٹ نے کہا ہم اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کوترجیحی بنیاد پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھاتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔

مزید خبریں :