23 جنوری ، 2013
کراچی … محمد رفیق مانگٹ … امریکی اخبار ”کرسچین سائنس مانیٹر“ لکھتا ہے کہ رواں برس پاکستان میں اہم ترین تبدیلیاں رونما ہوں گی جس سے ملک کا مکمل سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا، قیادت کی تبدیلی بے یقینی کی صورتحال پیدا کرے گی، پر تشدد واقعات رونما ہو سکتے ہیں، تاہم کسی فوجی بغاوت کا امکان نہیں۔ اخبا ر نے اپنی خصوصی رپورٹ ”گلوبل سیکیورٹی فار کاسٹ“ میں پاکستان میں 2013ء میں ہونے والے منظر نامے کو یوں لکھا کہ فوجی سربراہ، صدر، چیف جسٹس اور پارلیمنٹ تبدیل ہوجائیں گے، پاکستان میں اکثر طاقت کے محور اور اہم عہدے جمہوری طرز سے تبدیل نہیں بلکہ اکثر کو بے دخل یا برطرف کرنے جیسے واقعات کا زیادہ ہاتھ رہا ہے، پاکستان میں اس تبدیل ہوتی نازک صورتحال پر واشنگٹن پالیسی سازوں اور مغربی ممالک کو قریب سے نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اگران عہدوں پر کسی بھی قسم کی تبدیلی متنازع صور ت اختیار کر گئی توسڑکوں پر احتجاج پھوٹ سکتے ہیں، جس سے ملک مفلوج ہو جائے گا، خطے اور افغانستان میں امریکی مفادات اور مقاصد کو دھچکا لگے گا، تاہم پاکستان میں کسی سیاسی افراتفری یا کوئی آئینی بحران دکھائی نہیں دیتا۔ رواں برس جن خدشات کا امکان ہے وہ یہ کہ قیادت کی تبدیلی بے یقینی پیدا کرے گی اور سرمایہ کاری میں کمی ہوگی۔ امریکی اخبار کے مطابق پاک فوج کے آئندہ سربراہ کا امریکا سے تعاون کا امکان نہیں، 2002ء کی طرح اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنے کا امکان نہیں۔ اخبار نے سیاسی تجزیہ کار کے حوالے سے لکھا کہ اب پاکستان میں کسی فوجی بغاوت کے امکانات نہایت کم ہیں، ملک میں اس وقت ایسے سیاسی لوگ نہیں جو فوج کو اقتدار میں آنے کی دعوت دیں ، سیاسی جماعتیں کسی خو ساختہ رہنما کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی کسی رہنما کی پشت پر عالمی طاقتیں ہیں۔ زیادہ تر حلقوں کا خیال ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی نومبر میں مدت پوری ہونے کے بعد خاموشی سے چلے جائیں گے۔ آرمی چیف کی دوسری بار مدت میں توسیع کی نظیر پاکستان میں نہیں ملتی۔ کئی حلقے چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی پروموشن کیلئے جگہ خالی کردیں، ان کے جانشین افغانستان میں امریکا کیلئے زیادہ مدد گار نہیں ہوں گے، کابل میں پاک مخالف حکومت بننے سے پاکستان کا سینڈوچ بننے کا خدشہ ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی انتخابات جون سے قبل متوقع ہیں، صدر زرداری کی مدت اگست میں ختم ہو رہی ہے، نئے صدر کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی تشکیل ضروری ہے۔ آصف زرداری اپنے براہ راست انتخاب کی کوشش کر سکتے ہیں یا انتخابات کو ملتوی کرسکتے ہیں تاکہ موجودہ اسمبلی سے اپنی دوسری مدت کیلئے صدارت کیلئے منتخب ہوسکیں، تاہم ضابطے اس معاملے میں واضح نہیں۔ رپورٹ کے مطابق صدر زرداری پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ غیر مقبول صدر ہیں، دیہی پاکستانی کسی نظریاتی بنیادوں پر یا حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ مقامی سرپرستی کے ساتھ مذاکرات کے ساتھ یہ طے پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان جیسے کی نظریاتی مگر سیاسی طور پر زیادہ غیر مربوط جماعت کا دیگر ماتحت اتحادیوں کے مقابلے میں زیادہ اکثریت حاصل کا امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی پاکستانی رہنماء امریکی مخالف جذبات کے باوجود انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر امریکا کا ساتھ دیتے ہیں۔ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 2002ء کی طرح طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی مذہبی جماعتوں کو اکثریت حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے، تاہم نئی صوبائی حکومت امریکی امیدوں پر پوری نہیں اترے گی اور وہ طالبان کے ساتھ امن بات چیت کو ترجیح دے گی، پاکستان میں قیادت کی تبدیلی اہم ہوگی جو کلی خدوخال کو تبدیل کردے گی۔