07 فروری ، 2024
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عام انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی بھرپور طریقے سے چلائی۔
8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے کچھ دن پہلے چہرے کو ڈھانپے اور سر پر اسکارف پہنے کومل اصغر لاہور میں اسی پہناوے میں ملبوس خواتین کی ایک ٹیم کی قیادت کر رہی تھیں۔
اس ٹیم کا مشن تھا کہ ہر دروازے پر دستک دے کر جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی تصاویر سے مزین انتخابی پمفلٹ تقسیم کریں۔
انشورنس کمپنی کی 25 سالہ ملازمہ کومل نے مشکلات میں گھری عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کے لیے مہم چلانے کے لیے اپنی نوکری ایک ماہ کے لیے چھوڑ دی۔
انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ اس طرح کے حلیے میں ہم لوگوں توجہ سے بچیں گے کیونکہ عوام خواتین کو خطرہ نہیں سمجھتی، اسی لیے ہم نے سوچا کہ یہ مہم بغیر کسی تنازع کے مکمل ہوگی۔
پی ٹی آئی کے پندرہ امیدواروں اور حامیوں سمیت سیاسی تجزیہ کاروں اور آئی ٹی ماہرین کے انٹرویوز کے مطابق پی ٹی آئی نے خفیہ مہم چلانے کے لیے قیادت اکثر خواتین اساتذہ سے کروائی یا پھر آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے مدد حاصل کی۔
پارٹی نے اپنے بانی عمران خان کی فوٹیج بنانے کے لیے بھی اے آئی کا استعمال کیا جو تقریریں انہوں نے جیل سیل سے وکلا کو سنائیں اور حامیوں کو الیکشن کے دن باہر آنے کی تاکید کی وہ سب مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے کیا گیا۔
اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کے تحت سوشل میڈیا پر آن لائن ریلیوں کا اہتمام بھی کیا گیا جسے یوٹیوب پر ایک وقت میں لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔
عمران خان پہلے پاکستانی رہنما نہیں ہیں جو انتخابی مہم کے دوران جیل میں ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی صلاحیت نے سابق وزیر اعظم کی مقبولیت کو چار چاند لگائے۔
عمران خان کو ریاستی راز افشا کرنے پر (سائفر کیس میں) 30 جنوری کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد انہیں گزشتہ بدھ کو غیر قانونی طور پر سرکاری تحائف فروخت کرنے (توشہ خانہ کیس) کے جرم میں 14 سال کی سزا سنائی گئی اور ہفتے کے روز انہیں غیر قانونی شادی کے جرم میں 7 سال کی سزا سنائی گئی، اگرچہ وہ تمام الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں، ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ سزاؤں کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
71 سالہ بانی پی ٹی آئی نے 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2022 میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے باعث انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے خبر ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے سے صرف اس وقت روکا گیا جب ان کے پاس مطلوبہ اجازت نامے نہیں تھے یا جب پی ٹی آئی حامیوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تصادم ہوا تھا۔
پنجاب پولیس چیف عثمان انور نے کہا کہ ان کی فورس کا کام سکیورٹی فراہم کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم کسی سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔
مختلف گروپس اور حریف سیاستدانوں نے عمران خان پر الزام لگایا کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے جمہوری اصولوں کو پامال کر رہے ہیں جب کہ اس قسم کے تمام الزامات کی بانی پی ٹی آئی نے تردید کی۔
پی ٹی آئی کو ویسے تو عوامی طور پر کوئی قابل اعتماد پولنگ دستیاب نہیں لیکن پارٹی کارکنان اور آزاد تجزیہ کار جیسے کہ امریکا میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوشن تھنک ٹینک کی مدیحہ افضل کا کہنا ہے کہ عمران خان کو ملک کی نوجوانوں کی بڑی آبادی میں بھرپور حمایت حاصل ہے۔
نواز شریف گزشتہ سال کے آخر میں جلاوطنی کاٹ کے لوٹے تھے اور ان کی بدعنوانی کی سزا اور سیاست سے تاحیات پابندی کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔
مدیحہ افضل نے کہا اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے بڑی رکاوٹیں اس بات کا امکان بناتی ہیں کہ پارٹی اپنی مقبولیت کے باوجود ہار جائے گی، بانی پی ٹی آئی حامیوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کو مکمل طور پر ختم کرنا بہت جلد بازی تھی۔
پی ٹی آئی نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ اگر وہ 8 فروری کو جیت جاتی ہے تو وہ کس کو وزیراعظم بنائے گی۔
ورچوئل مہم:
پی ٹی آئی کے امریکا میں مقیم سوشل میڈیا لیڈر جبران الیاس نے کہا کہ پارٹی پر پابندیوں نے اسے ڈیجیٹل مہم کو ترجیح دینے پر مجبور کیا، جو پارٹی کے دیگر ڈیجیٹل لیڈروں کی طرح بیرون ملک مقیم ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے 240 ملین افراد میں سے صرف نصف کے پاس اسمارٹ فونز ہیں اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ناقص ہے، پی ٹی آئی کو امید ہے کہ وہ انتخابات کے لیے کافی نوجوانوں تک پہنچ سکتی ہے، ووٹ ڈالنے کی عمر 18 سال ہے اور دو تہائی سے زیادہ ووٹروں کی عمر 45 سال سے کم ہے۔
اس حکمت عملی کا مرکز ان لوگوں کو یاد دلانا ہے جنہوں نے پی ٹی آئی کو اس کے مشہور بانی کی وجہ سے ووٹ دیا تھا کہ یہ اب بھی خان کی پارٹی ہے۔
جبران الیاس نے کہا کہ ہم نے عمران خان کے بغیر کبھی کوئی سیاسی ریلی نہیں کی تھی، لہذا جب ہم آن لائن ریلی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو ہم اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔
پی ٹی آئی نے ایک ایپ بھی بنائی ہے جو فیس بک اور واٹس ایپ صارفین کو اپنے حلقے میں پارٹی کے امیدوار کو تلاش کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ بہت سے ووٹرز نے پی ٹی آئی کو اس کے کرکٹ بیٹ کے انتخابی نشان سے شناخت کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے حال ہی میں پی ٹی آئی پر تکنیکی بنیادوں پر اسے استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سافٹ وئیر کے غلط استعمال کی صلاحیت پر بحث نہیں کی اور صرف اور ڈیو کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار باضابطہ پارٹی وابستگی کے بغیر انتخاب لڑ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی نے جلسوں کو دوبارہ بنانے کی کوشش میں آن لائن ریلیاں بھی نکالی ہیں، بڑی ریلیاں جو ملک بھر میں پارکوں اور بڑے چوراہوں پر ہوتی ہیں۔
لیکن ووٹروں کو ریلیوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مئی میں خان کی پہلی گرفتاری کے بعد سے، نیٹ بلاکس کے عالمی انٹرنیٹ مانیٹر نے یوٹیوب، ایکس اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی میں چھ رکاوٹیں پائی ہیں۔ ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی ورچوئل جلسے کر رہی تھی۔
وزیر اطلاعات سولنگی نے کہا کہ قومی رکاوٹیں تکنیکی وجوہات کی وجہ سے ہیں جو پی ٹی آئی کی مہم سے متعلق نہیں ہیں۔ پاکستان کی وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے تبصرہ کے لیے درخواستیں واپس نہیں کیں۔
پولیس کی موجودگی
پی ٹی آئی کی آن لائن رسائی کے باوجود پاکستان میں انتخابات جن کے ووٹرز شہروں، وسیع صحراؤں اور دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں رہتے ہیں، ان کا انحصار بھی انتخابی کارکنوں پر ہوتا ہے جو ٹرن آؤٹ پیدا کرتے ہیں۔ ان میں مسلم لیگ (ن) جیسی جماعتوں کے بینرز اور پوسٹرز ملک بھر میں عام نظر آتے ہیں، لیکن کراچی اور لاہور میں رائٹرز کے نامہ نگاروں نے پی ٹی آئی کے کوئی بینرز نہیں دیکھے۔
لاہور میں مقیم پی ٹی آئی کے آرگنائزر نوید گل نے کہا کہ پوسٹر لگانے کے فوراً بعد ہی حکام کی طرف سے اکثر ہٹا دیا جاتا ہے، یہ الزام پنجاب پولیس کے سربراہ انور نے "بد نیتی پر مبنی" قرار دیا۔
رائٹرز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ پی ٹی آئی کا پارٹی مواد ہٹا دیا گیا تھا۔
جاری کریک ڈاؤن 28 جنوری کو ابل پڑا، جب پی ٹی آئی نے اتوار کی ٹھنڈی صبح کو ملک گیر ریلیاں نکالنے کا منصوبہ بنایا۔
لیکن پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں پولیس اور خان کے حامیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ ٹیلی ویژن فوٹیج کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آنسو گیس کے گولے داغے۔ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ جھڑپوں کے بعد تین دنوں میں 72 گرفتاریاں کی گئیں۔