پاکستان
24 جنوری ، 2013

جاوید سموئیل کی رہائش گاہ پر ادب دوست شخصیات کے اعزاز میں عشائیہ

جاوید سموئیل کی رہائش گاہ پر ادب دوست شخصیات کے اعزاز میں عشائیہ

ڈیلس…راجہ زاہد اختر خانزادہ/نمائندہ خصوصی …پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے معروف راہنما اور مقامی چرچ کی ممتاز شخصیت جاوید سموئیل اور ان کی اہلیہ ارم جا وید کی جانب سے ان کی رہائش گاہ واقع پلانو میں مقامی شعراء اور ادیب دوست شخصیات کے اعزاز میں پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں معروف ادبی شخصیات اور مختلف شعبہ کی نمایاں شخصیات نے شر کت کی۔ اس موقع پر شعر سخن کی محفل سجائی گئی جس کے مہمان خصوص اردو گھر کے بانی ڈاکٹر عامر سلمان، نور امروہی تھے جبکی صدارت معروف شاعر طارق ہاشمی نے کی۔اس موقع پر شعرائے اکرام جن میں سید یونس اعجاز ،طارق ہاشمی،سعید قریشی،شاہ عام صدیقی،نور امروہی،ڈاکٹر عامر سلیمان ،فرحان سید،جاوید رشید،رحمت علی،زہرا چشتی نے اپنے کلام سے حاضرین محفل کو محظوظ کیا اور ڈھیروں داد وصول کی،طارق ہاشمی نے اس موقع پر اپنا کلام پیش کرتے ہو ئے شعر کہا کہ#
توڑ دو شیشے صراحی غم ساغر طارق
ڈھونڈ کر لاؤ کہیں سے ہمارا ساقی
کہاں تجھے بنائے ہمسفر زمانہ ہوا
مگر یہ لگتا ہے اے چشم نم زمانہ ہوا
ابھی وہ اٹھ کر گئے ہیں مہک رہی ہے فضاء
یہ کیف ذہن میں کیوں ہے اگر زمانہ ہوا
معروف صاحب دیوان شاعر یونس اعجاز کے اشعار کچھ یوں تھے#
لب پہ ہلکا سا تبسم جو سجا لے کوئی
اپنے پیچھے جب چاہے لگالے کوئی
اتنا مشکل بھی نہیں ہوں کہ کبھی ہاتھ نہ آؤں
اتنا آساں بھی نہیں ہوں کہ اٹھالے کوئی
یونس اعجاز نے اس موقع پر پنجابی اشعار بھی کہے۔
اردو گھر کے بانی ڈاکٹر عامر سلیمان نے اپنے اشعار کچھ یوں پیش کئے#
رات فطرت کی طرح جب خود سے تھا میں ہم کلام
مجھ کو کچھ ایسالگا ہے تو ہی ہے ہر سو پھیلا ہوا
ڈیلس کے معروف صحافی اور شاعر سعید قریشی نے اپنا کلام سناکر زبردست داد و تحسین حاصل کی۔ ان کے کلام کو استادانہ کلام سے تعبیر کیا گیا۔ ان کے چند اشعار کچھ اس طرح تھے#
لوٹے گا کیا کوئی ہمیں اپنے پہ یہ یقین رہا
دیکھا جو اس نے اک نظر دل رہا نہ دین رہا
زیر نہ کرسکیں اسے وقت کی چیرہ دستیاں
جتنا حسین تھا کبھی اتنا ہی وہ حسین رہا

صحافی اور شاعر شاہ عالم صدیقی نے اپنے اشعار کچھ اس طرح کہے#
خاموشی سے بیٹھے رہنا اپنے آپ میں گم سم رہنا
ان کا غم بھی خود ہی سہنا یہ بھی ایک کہانی ہے

ادبی محفل کے میزبان جاوید سموئیل نے اپنے سسر ظفر سموئیل کی یاد میں ان کی غزل سنائی جس کے اشعار کچھ اس طرح سے تھے#
پھر چمن میں پھول مہکے پھر بہار آنے کو ہے
گلستاں کے پتہ پتہ پر نکھار آنے کو ہے

معروف شاعر نور امروہی نے نئے سال کے حوالے سے اپنی غزل پیش کی جسکے اشعار کچھ اس طرح سے تھے#
ہواؤں نے جب پیار کے گیت گائے
خوشی کے دئیے ہر طرف جگمگائے
نئے سال پر تم بہت یاد آئے
صاحب دیوان شاعر جاوید رشید نے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری پیش کی جس کے اشعار کچھ اس طرح سے تھے#
وہ تھے پتھر کے صنم بعد میں احساس ہوا
کس قدر قیمتی سجدے تھے گنوائے ہم نے
انکا مزاحیہ شعر کچھ اس طرح سے تھا#

اب تو کھانا پکاتی ہوئی بیوی سے ڈرتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو کوفتہ کھینچ کے مارے اس میں بم نکلے

فرحان سید نے اپنی غزل پیش کی جسکے اشعار کچھ اس طرح تھے#
ظلمت میں تیرگی میں حیاء کے وکیل ہیں
شہر بتاں میں ہم ہی خدا کے وکیل ہیں
زہرہ چشتی نے ترنم میں اپنا کلام سنایا ۔ انکی غزل کا اک شعر کچھ اس طرح سے تھا#
زندگی بھر کی کمائی جوڑ جوڑ کر پردیس سے
ہم وطن پہنچے تو اب پہچانتا کوئی نہیں
جبکہ رحمت علی نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا جس کے چند اشعار کچھ اس طرح سے تھے#
جس کی نہیں کوئی مثال تو وہ عظیم ذات ہے
تو ہی میری حیات تو ہی میری نجات ہے

ادبی محفل کی نظامت کے فرائض معروف شاعر نور امروہی نے سرانجام دئیے۔

مزید خبریں :