6 سال چیئرمین سینیٹ رہنے والے صادق سنجرانی کی بطور رکنِ سینیٹ مدت مکمل ہو گئی

بظاہر کم ارکان کی حمایت رکھنے کے باجود دو مرتبہ چیئرمین سینیٹ بنے اور ایک تحریک عدم اعتماد کو شکست دی
بظاہر کم ارکان کی حمایت رکھنے کے باجود دو مرتبہ چیئرمین سینیٹ بنے اور ایک تحریک عدم اعتماد کو شکست دی

6 سال چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر فائز رہنے والے صادق سنجرانی کی بطور رکنِ سینیٹ مدت مکمل ہو گئی۔  

صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 کو بلوچستان سے پہلے اور کم عمر ترین چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ پہلی بار سیاسی منظر نامے پر آنے والے صادق سنجرانی کو حریف جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور بلوچستان اور فاٹا سے آزاد حیثیت میں منتخب ارکان نے ملکر مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کے مقابلے میں چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا۔

صادق سنجرانی نے دوسری بار سب کو تب حیران کیا جب انھوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کی حمایت سے آنے والی اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو شکست دی۔ تحریک عدم اعتماد لانے والے 14 سینٹرز نے خفیہ رائے شماری میں اپنا ووٹ صادق سنجرانی کو دیا۔

صادق سنجرانی کے وننگ ریکارڈ کو دیکھتےہوئے 2021 میں عمران خان نے چیئرمین سینیٹ نامزد کیا اور وہ پھر بظاہر کم ارکان کی حمایت کے باوجود سینیٹ چیئرمین شپ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دینے میں کامیاب رہے جن کے ماتحت انھوں نے کبھی کام کیا تھا۔ 

اس الیکشن کے دوران پولنگ بوتھ پر لگے خفیہ کیمروں کا بھی انکشاف ہوا۔

صادق سنجرانی کے دور میں ایوان نے متنازع قراردادیں منظور کیں جن میں عام انتخابات 2024 کے التوا کی قرارداد شامل ہے۔ ا س کے علاوہ سینیٹ نے سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی۔

آئی ایم ایف کی شرط پر جب پی ٹی آئی حکومت اسٹیٹ بینک ترمیمی بل لائی تو منظوری کے وقت ووٹ برابر ہونے پر چیئرمین سینیٹ نے اپنا ووٹ بل کے حق میں دے دیا۔

میاں نواز شریف علیل ہوئے تو صادق سنجرانی نے رولنگ دی کہ انھیں علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ صادق سنجرانی کے دور میں دو مرتبہ چیئرمین اور اراکین سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے متنازع بلز آئے، ایک مرتبہ تو بل پیش نہ ہو سکا لیکن دوسری مرتبہ سینیٹ نے منظور کر لیا۔

11 مارچ کے بعد سینیٹ کے چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد عہدہ خالی ہونے پر نئے چیئرمین کے آنے تک چیئرمین کے عہدے میں توسیع کیلئے رولز میں ترمیم کی تجویز بھی آئی جس کی پیپلز پارٹی کی جانب سے مخالفت کی گئی۔

صادق سنجرانی نے متعدد بار قائم مقام صدر کی ذمہ داری سنبھالی، بطور قائم مقام صدر الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کیے جس سے پی ٹی آئی کو شدید اختلاف تھا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد جب عارف علوی نے شہباز شریف سے حلف لینے سے معذرت کی تو صادق سنجرانی نے نو منتخب وزیر اعظم سے حلف لیا۔

صادق سنجرانی اپنے دور میں سفارتی سطح پر کافی فعال دکھائی دیے۔ مختلف ممالک کے سفیروں کے ساتھ صادق سنجرانی کا اچھا تعلق رہا۔ صادق سنجرانی نے روس کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی نے روسی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا۔ صادق سنجرانی نے انٹرنیشنل پارلیمنٹرینز کانگریس کے قیام کی بنیاد رکھی۔ صادق سنجرانی نے 2018 میں گوادر میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کا اجلاس کرایا جس میں ایشیا بھر سے ارکان شریک ہوئے۔

صادق سنجرانی 8 فروری کے الیکشن میں رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔

صادق سنجرانی کے دور میں چیئرمین سینیٹ کا دفتر خاصا فعال رہا۔ صادق سنجرانی کا دفتر ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان کیلئے کھلا رہا۔ صادق سنجرانی نے اپنی مفاہمتی پالیسی کو اتنا مؤثر بنایا کہ ان کے سب سے بڑے حریف میاں نواز شریف بھی ان سے خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ ان سے خصوصی ملاقات کرنے پر مجبور ہوئے۔

مزید خبریں :