بلاگ
Time 01 اپریل ، 2024

آصفہ بھٹو یا قومی اسمبلی میں بینظیر 2.0

پیپلزپارٹی کی مقتول چیئرپرسن اور مسلم ممالک کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ہم شکل بیٹی آصفہ بھٹو نے بلآخر پارلیمانی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔

مثل مشہور ہے کہ پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں یعنی بچے کے مستقبل کے آثار شروع ہی میں واضح ہوجاتے ہیں، سیاست میں تو آصفہ بھٹو کو آنا ہی تھا مگر یہ بات خاص طورپر اہم ہے کہ آصفہ بھٹو نے قومی اسمبلی ہی کا الیکشن کیوں لڑا؟

میں نے آصفہ بھٹو کا پہلا انٹرویو سن2004 میں اس وقت کیا تھا جب آصف علی زرداری جیل سے رہا ہوئے تھے، بے نظیر بھٹو اس وقت دبئی کے علاقے جُمیرا میں رہائش پذیر تھیں۔

آصف علی زرداری کی رہائی پر بےنظیر کے گھر جشن کا سماں تھا، کئی دوست احباب جمع تھے، رہائی کی خوشی میں کیک کاٹا گیا تھا، ڈرائنگ روم میں لوگ اس قدر تھے کہ کوئی سیٹ خالی نہ تھی۔

آصفہ بھٹو  یا قومی اسمبلی میں بینظیر 2.0

بلاول بھٹو صوفے کے بازو پر جگہ بنائے بے نظیر بھٹو کے بائیں جانب تھے، بختاور جن کا اصل نام بخت ور یعنی قسمت لانے والی ہے، وہ صوفے پر بینظیر بھٹو کے ساتھ دائیں جانب بیٹھی تھیں اور آصفہ بھٹو فرش پر اپنی والدہ کے پاؤں میں بیٹھی تھیں۔

سب کی نظریں ایک کونے میں رکھے گئے بڑے ٹی وی پر تھیں جہاں جیونیوز آصف زرداری کی رہائی سے متعلق تازہ ترین خبریں پیش کر رہا تھا۔

بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان تلخیوں کی افواہیں اپنی جگہ،بے نظیر بھٹو نے اس انٹرویو میں آصف زرداری کو پاکستان کا نیلسن منڈیلا قرار دیا تھا،وہ وزیراعظم ہاؤس میں کھینچی گئی یادگار تصویر تھامے ہوئے تھیں جس میں وہ آصف علی زرداری اور بچے موجود تھے،وہ بتارہی تھیں کہ'آخری بار تو ہم پرائم منسٹر ہاؤس میں اکھٹے تھے'

بے نظیر بھٹو کا انٹرویو کرنے کے بعد میں نے بلاول بھٹو اور بختاور بھٹو سے بھی تاثرات لیے۔ اس دوران بے نظیر بھٹو نے آصفہ بھٹو کی طرف اشارہ کیا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'ایک منٹ سُنو یہ مجھے کیا کہہ رہی تھی' پھر آصفہ سے انگریزی میں بولیں، 'اِسپیِک ٹُو اَنکل وَاٹ یُو ٹولڈ مِی' یعنی انکل کو بتاؤجو تم نے مجھ سے کہا تھا۔

گیارہ سال کی بچی جس کے والد کو آٹھ برس تک قید کا سامناکرنا پڑا ہو، تصور ہی کیا جاسکتا ہے کہ رہائی کیلئے وہ کس قدر دعاگو رہی ہوگی اورقید سے چھوٹنے پر وہ اپنے والد سے ملنے کیلئے کتنی بے تاب ہوگی۔

آصفہ بلاجھجک مگر انتہائی جذباتی انداز سے بولیں' میں نے رمضان کا پورا مہینہ اپنے والد کی رہائی کیلئے دعا کی ہے۔ میرے خیال میں ججز نے میری دعائیں سُن لی ہیں'۔

آصفہ بھٹو نے یہ بات کہی بھی اس انداز سے تھی کہ میں نے دفتر واپسی پر اپنے ساتھی صحافیوں سے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے تینوں بچوں کی سیاست میں دلچسپی ہو نہ ہو مگر آصفہ بھٹو سیاستدان ضرور بنیں گی۔

آصفہ بھٹو  یا قومی اسمبلی میں بینظیر 2.0

آصفہ بھٹو کا دوسرا انٹرویو کرنے کا موقع مجھے اس وقت ملا جب بے نظیر بھٹو سن دوہزار سات میں وطن واپس آرہی تھیں، اس وقت وہ ایمریٹس ہلز منتقل ہوچکی تھیں۔

بے نظیر بھٹو اپنے بچوں کے بارے میں انتہائی حساس تھیں، مجھے بے نظیر صاحبہ کے ترجمان فرحت اللہ بابر صاحب نے خاص طورپر کہا تھا کہ بی بی جب تک اپنے بچوں کے انٹرویو کی خود اجازت نہ دیں، پوچھیے گا نہیں، بات واضح تھی کیونکہ بچوں کی عمریں کم تھیں اور والدین کی اجازت کے بغیر یہ انٹرویو نہیں ہونے چاہیے تھے۔

انٹرویو ختم ہونے پر بے نظیر بھٹوہی کی تین کتابوں پر انکے دستخط لیتے ہوئے میں نے انہیں پرانا انٹرویو یاد دلایا اور کہا کہ پچھلی بار میں نے بلاول،بختاور اورآصفہ کا بھی انٹرویو کیا تھا، میں رکارڈنگ ساتھ لے گیا تھا، اسے دیکھتے ہی بے نظیر بھٹو نے تینوں بچوں کو بلایا جو اس وقت پہلی منزل پر تھے۔

بےنظیر بھٹو نے بتایا کہ بلاول پڑھنے آکسفورڈ جارہے ہیں اورانہی کمروں میں رہیں گے جہاں شہید ذوالفقارعلی بھٹو رہے تھے، بختاور اور آصفہ بھٹو کی پڑھائی کی مصروفیات بتائیں، میں نے بی بی کو یاد دلایا کہ آصفہ بھٹو سب سے چھوٹی ہیں مگر آصف زرداری کی رہائی پر جوجذباتی اوردلوں کو پگھلانے والی بات آصفہ بھٹو نے کہی تھی، وہ مجھے سب سے زیادہ پراثرلگی تھی۔

بے نظیر نے تینوں بچوں کے انٹرویو کی پھر اجازت دیدی، اس طرح بلاول ، بختاور اور آصفہ بھٹو کے انٹرویو ایک بار پھر کیے جو کئی بار جیونیوز پر نشر کیے جاچکےہیں، آصفہ بھٹو نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ 'والدہ کےساتھ پاکستان جانا چاہتی ہیں مگر پہلے پڑھائی ضروری ہے'۔

دہشتگردوں نے بے نظیر بھٹو کو تو پارلیمنٹ نہ پہنچنے دیا مگر اب بے نظیر کی ہم شکل انکی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری رمضان ہی میں پارلیمنٹ کی رکن منتخب کرلی گئی ہیں۔انہیں نہ صرف سیاست میں آنا تھا بلکہ قومی اسمبلی ہی کا رکن بھی بننا تھا۔

راقم الحروف نے جیونیوز اردو ہی کیلئے یکم مارچ کو لکھے گئے مضمون میں کہا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور انکے سیاسی جانشینوں یعنی )بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو( اور زرداری خاندان )یعنی حاکم علی زرداری، آصف علی زرداری، ڈاکٹر عذرا فضل اور فریال تالپور( نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ہی عملی سیاست کا آغاز کیا تھا۔

'آصفہ بھٹو وزیراعلی سندھ کیوں نہیں بنیں' کے عنوں سے جس وقت یہ مضمون لکھا گیاتھا اس وقت تک اس بات کا دُور دُور تک زکر نہیں تھا کہ آصفہ بھٹو ضمنی الیکشن لڑیں گی۔

آصف علی زرداری نے صدر پاکستان بننے پر اپنی نشست خالی کی اور آصفہ بھٹوامیدوار نامزد ہوئیں تو یہ بات تو یقینی تھی کہ وہ سو فی صد کامیاب رہیں گی مگر طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے پہلا معرکہ ہی بلامقابلہ جیت لیا۔

آصف علی زرداری کے صدر پاکستان منتخب ہونے کے بعد اس حلقے کے ضمنی الیکشن میں آصفہ بھٹو کے مقابلے میں یوں تو گیارہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے مگر7 امیدواروں کے کاغذات الیکشن کمیشن نے مسترد کردیے تھے۔

جن امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے ان میں سردار شیر محمد رند، میر بہاول خان رند، غلام مصطفی رند، ، محمد سعید رندھاوا، سید عاکف زیدی، علی اکبر جمالی اور ذاکر حسین جمالی شامل ہیں جبکہ تین امیدواروں معراج احمد گوپانگ، امان اللہ سولنگی اور عبدالرسول بروہی نے کاغذات واپس لے لیے۔

بے نظیرآباد جسے کچھ عرصہ پہلے تک نوابشاہ کہا جاتا تھا،اس کے حلقہ این اے 207 کی اس نشست پر جب آصف علی زرداری نے الیکشن لڑا تھا تو اس وقت ان کے مقابلے میں 12 حریف میدان میں اُترے تھے۔

ویسے تو بقول حسرت موہانی 'جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے' مگرپیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے لاڑکانہ کی طرح نوابشاہ پر بھی پیپلزپارٹی کا گڑھ ہونے کی مُہر لگ گئی ہے۔

اسی حلقے سے آصف علی زرداری سن دوہزار اٹھارہ میں بھی کامیاب رہے تھے جبکہ سن دوہزار دو ،سن دوہزار آٹھ اور سن دوہزار تیرہ میں آصف علی زردای کی بڑی بہن ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے یہاں سے کامیابی کی ہیٹ ٹرک کی تھی۔

جہاں تک آصفہ بھٹو کا تعلق ہے، صدر آصف علی زرداری انہیں پہلے ہی خاتون اول یعنی خاتون پاکستان کا درجہ دے چکے ہیں، بعض لوگوں کو اس پر حیرت بھی ہوئی مگر تاریخ پر نظر ڈالنے والوں کو نہیں۔

ایم رضا پیربھائی کی کتاب 'فاطمہ جناح، مادر ملت' کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر کہ جب قائداعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو فاطمہ جناح اپنے بھائی کے انتقال تک خاتون پاکستان یعنی خاتون اول رہیں۔

آصفہ بھٹو کو خاتون پاکستان کا درجہ دینا اور رکن قومی اسمبلی منتخب کرانا آصف علی زرداری کے زیرک ترین سیاستدان ہونے کا ثبوت ہے۔ سیاسی بساط پر وہ اس قدر نپی تُلی چالیں چلتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اسکا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بناکر میاں نوازشریف نے مسلم لیگ ن کا پنجاب میں سوفٹ امیج پیدا کیا ہے،بلاول بھٹو میں لاکھ کرشماتی صلاحیت سہی،پیپلزپارٹی میں بھٹو خاندان کی ایک خاتون کی کمی محسوس کی جارہی تھی۔

آصف علی زرداری نے ایک ہی ماہ میں آصفہ بھٹو کو پہلے خاتون اول بنا کر اور پھر قومی دھارے کی سیاست میں لا کرپوری بازی پلٹ دی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔