بلاگ
Time 01 مارچ ، 2024

آصفہ بھٹو وزیراعلیٰ سندھ کیوں نہیں؟

فوٹو: پی پی پی/ایکس
فوٹو: پی پی پی/ایکس

بے نظیر بھٹوجیسی ان کی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کو پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ سندھ نہ بنا کر بظاہر ایک تاریخی موقع گنوا دیا ہے۔ انہیں کراچی کے علاقے لیاری یا سندھ کے دیگر شہری و دیہی علاقوں کے محفوظ حلقوں سے الیکشن لڑوا کر با آسانی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کروایا جاسکتا تھا۔

اس کے برعکس مریم نواز کا وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جانا پاکستان کی تاریخ میں منفرد واقعہ ضرور ہے مگر غیر متوقع نہیں، مجھ جیسے عام صحافی نے نومبر ہی میں دلائل کے ساتھ واضح کردیا تھا کہ ن لیگ مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنائے گی۔

یقیناً پیپلزپارٹی بھی اس اقدام سے واقف تھی اور مریم نواز سے یہ اعزاز چھیننا نہیں تو کم از کم برابر ضرور کرسکتی تھی۔

مریم نواز کے ملکی تاریخ کی پہلی وزیراعلیٰ بن کر تاریخ رقم کرنے دینے میں بھی بظاہر پیپلزپارٹی کی سیاسی تدبیر نظرآتی ہے۔

جلسوں، ریلیوں میں شرکت اور جیالوں کے اہل خانہ کی دلجوئی کرنیوالی آصفہ بھٹو کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ یہ الیکشن لڑیں گی— پی پی پی/ایکس
جلسوں، ریلیوں میں شرکت اور جیالوں کے اہل خانہ کی دلجوئی کرنیوالی آصفہ بھٹو کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ یہ الیکشن لڑیں گی— پی پی پی/ایکس

دو وجوہات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پوزیشن میں ہونے کے باوجود آصفہ بھٹو زرداری کو وزیراعلیٰ سندھ بنانے سے گریز کیا۔ پہلی اور سب سے اہم بات شاید یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو ہوں، ان کی اہلیہ اور سابق خاتون اول نصرت بھٹو، خود بھٹو کی بیٹی بے نظیر ہوں یا ان کے شوہر آصف زرداری اور اب تیسری پیڑھی میں بلاول بھٹو زرداری، ان میں سے کسی نے بھی صوبائی سطح سے سیاست کا آغاز نہیں کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ میں بطور وزیر کامرس اپنی سیاست کا آغاز کیا، کئی اور وزارتیں سنبھالیں اور پھر ملک کے صدر اور وزیراعظم بنے۔

شوہر کو آمر جنرل ضیاالحق کے دور میں پھانسی دی گئی تو بیگم نصرت بھٹو سیاسی طورپر متحرک ہوئیں اور 1988 میں لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئیں، وہ بے نظیربھٹو کی کابینہ میں وزیر اور نائب وزیراعظم بھی رہی تھیں۔

پیپلزپارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر ہوں یا ان کے شوہر آصف زرداری اور اب تیسری پیڑھی میں بلاول بھٹو زرداری میں سے کسی نے بھی صوبائی سطح سے سیاست کا آغاز نہیں کیا—فوٹو: فائل
پیپلزپارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر ہوں یا ان کے شوہر آصف زرداری اور اب تیسری پیڑھی میں بلاول بھٹو زرداری میں سے کسی نے بھی صوبائی سطح سے سیاست کا آغاز نہیں کیا—فوٹو: فائل

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جانشین اور بڑی بیٹی بے نظیربھٹو بھی 1988 ہی میں پہلی بار لاڑکانہ ہی سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں، پاکستان ہی نہیں مسلم ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی خاتون ایسی نہیں جو پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنتے ہی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوگئی ہو۔

بے نظیر بھٹو کے دو بھائیوں میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو میں سے صرف مرتضیٰ بھٹو ہی انتخابی سیاست میں فعال ہوئے۔ بے نظیربھٹو کے ایک باروزیراعظم بننے کے بعد جلاوطنی ختم کر کے وہ پاکستان آئے تو انہوں نے صوبائی سیاست اپنائی تھی۔

اس سوال پر کہ حالات کی نزاکت جانتے ہوئے آپ نے مرتضیٰ بھٹو کو وطن واپسی سے روکا نہیں تھا، بے نظیر بھٹو نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مرتضیٰ اپنی مرضی سے وطن واپس آئے تھے، اسٹیبلشمنٹ نے ایک تیر سے دوشکار کیے تھے، بھائی کو مار دیا گیا اور ان کی حکومت گرادی گئی۔

دو رائے نہیں کہ مرتضیٰ بھٹو کرشماتی شخصیت کے حامل تھے مگر وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی جانشین نہ تھے— فوٹو: فائل
دو رائے نہیں کہ مرتضیٰ بھٹو کرشماتی شخصیت کے حامل تھے مگر وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی جانشین نہ تھے— فوٹو: فائل

اس میں دو رائے نہیں کہ مرتضیٰ بھٹو کرشماتی شخصیت کے حامل تھے مگر وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی جانشین نہ تھے کیونکہ بھٹو نے جیالوں کو مسلح جدوجہد پر اس وقت بھی نہیں اُکسایا تھا جب مسلم ممالک کے اس مایہ ناز ترین رہنماؤں میں سے ایک کو جنرل ضیا نے اپنی گردن بچانے کیلئے تختہ دار پر بھیج دیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری 1980 کی دہائی کے آخر میں مرد اول تو بنے مگر انہوں نے اس دور میں قومی یا صوبائی اسمبلی سے الیکشن لڑنے سے گریز کیا تھا، وہ پہلی بار رکن قومی اسمبلی 1990 میں بنے تھے۔

پیپلزپارٹی کیخلاف محلاتی سازشوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کار گزاریوں کا شکار ہوکر انہوں نے جیلیں کاٹیں، تشدد سہا،  بے نظیر انہیں پاکستان کا نیلسن منڈیلا اور مرد حُر کہتی تھیں— فوٹو: فائل
پیپلزپارٹی کیخلاف محلاتی سازشوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کار گزاریوں کا شکار ہوکر انہوں نے جیلیں کاٹیں، تشدد سہا،  بے نظیر انہیں پاکستان کا نیلسن منڈیلا اور مرد حُر کہتی تھیں— فوٹو: فائل

پیپلزپارٹی کیخلاف محلاتی سازشوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کار گزاریوں کا شکار ہوکر انہوں نے جیلیں کاٹیں، تشدد سہا اور مخالفین کی جانب سے ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کہلائے، حالانکہ بے نظیر انہیں پاکستان کا نیلسن منڈیلا اور مرد حُر کہتی تھیں۔

آصف زرداری نے بے نظیربھٹو کی شہادت دیکھی، تاہم آمریت اور دہشتگردوں سے انتقام کیلئے جمہوریت کو ہتھیار بنایا۔

اتفاق یہ ہے کہ حاکم علی زرداری نے بھی 1972، 88 اور 93 میں تین الیکشن قومی اسمبلی کے لڑے، آصف زرداری کی بہنیں فریال ٹالپر اور ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ہی عملی سیاست کا آغاز کیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اب ایک عرصے سے وہ سندھ اسمبلی کی فعال رکن ہیں، انہیں بھی وزیراعلیٰ سندھ بنایا جاسکتا تھا مگر پیپلزپارٹی نے شاید جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔

حاکم علی زرداری،  آصف زرداری کی بہنوں فریال ٹالپر اور ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ہی عملی سیاست کا آغاز کیا— فوٹو: فائل
حاکم علی زرداری،  آصف زرداری کی بہنوں فریال ٹالپر اور ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ہی عملی سیاست کا آغاز کیا— فوٹو: فائل

جہاں تک بھٹو خاندان کی تیسری نسل کا تعلق ہے تو اس نے بھی قومی سطح سے ہی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ بھٹو کے سیاسی وارث اور بے نظیر بھٹو کے جانشین بلاول بھٹو نے اپنے نانا کی طرح لاڑکانہ ہی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ بختاور بھٹو زرداری نے ان کے جلسوں میں تو شرکت کی مگر عملی سیاست سے تاحال گریز کیا ہے۔

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

لباس اور انداز سے بے نظیربھٹو جیسی آصفہ بھٹو انتخابی مہم میں غیرمعمولی حد تک فعال رہیں۔ جلسوں، ریلیوں میں شرکت اور جیالوں کے اہل خانہ کی دلجوئی کرنیوالی آصفہ بھٹو کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ یہ الیکشن لڑیں گی۔

لباس اور انداز سے بے نظیربھٹو جیسی آصفہ بھٹو انتخابی مہم میں غیرمعمولی حد تک فعال رہیں— فوٹو: پی پی پی/ایکس
لباس اور انداز سے بے نظیربھٹو جیسی آصفہ بھٹو انتخابی مہم میں غیرمعمولی حد تک فعال رہیں— فوٹو: پی پی پی/ایکس

صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑتیں تو با آسانی منتخب ہو کر سندھ کی کم عمر ترین اور پہلی وزیراعلیٰ بھی بن سکتی تھیں۔

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

ملکی سیاست کے دوسرے بڑے گھرانے شریف فیملی میں میاں نوازشریف ہوں، ان کے بھائی شہبازشریف، بھتیجا حمزہ شہباز یا بیٹی مریم نواز سبھی نے اپنی سیاست کا آغاز پنجاب میں صوبائی سطح سے کیا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نہ صرف شریف خاندان بلکہ ن لیگ کی پنجاب سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سیاست نوازشریف ہی کی مرہون منت ہے۔ ایک دور تھا کہ میاں نوازشریف اس اتحاد آئی جے آئی کا بھی حصہ تھے جو بے نظیر بھٹو کیخلاف بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد میں شامل مذہبی جماعتیں ایک خاتون کے وزیراعظم بننے کے خلاف تھیں اور اس نام پر بے نظیر کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے ہر اقدام پر تیار تھیں۔

شریف فیملی میں  نوازشریف، شہبازشریف، حمزہ شہباز یا مریم نواز سبھی نے اپنی سیاست کا آغاز پنجاب میں صوبائی سطح سے کیا— فوٹو: فائل
شریف فیملی میں  نوازشریف، شہبازشریف، حمزہ شہباز یا مریم نواز سبھی نے اپنی سیاست کا آغاز پنجاب میں صوبائی سطح سے کیا— فوٹو: فائل

’بدلتا ہے رُخ آسمان کیسے کیسے‘، آج ان ہی میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہیں، والد کی طرح زیرک اور والدہ بیگم کلثوم نواز کی طرح دلیر، شاید وہ دن بھی دور نہیں کہ مریم نواز اپنے والد میاں نوازشریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ کا سفر طے کریں۔

آج ان ہی میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہیں—فوٹو: فائل
آج ان ہی میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہیں—فوٹو: فائل

پیپلزپارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ مریم نواز کو ملکی تاریخ کی پہلی وزیراعلیٰ بننے کا موقع دے کر آصف زرداری نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔