20 جون ، 2024
بقرعید پرہرسال کی طرح اس بار بھی جذبہ ایمانی کے ساتھ سنت ابراہیمی ادا ہوئی۔ ملک میں بے شمار جانور اللہ کی خوشنودی کیلئے قربان کیے گئے،ہزارروں اونٹ بھی نحر ہوئے مگر اس عید پر لوگوں کی توجہ کا مرکز وہ زخمی اونٹنی رہی جس کی ٹانگ سنگدل نے صرف اس لیے کاٹ دی کہ اس نے کھیت میں قدم رکھ دیا تھا۔
پورا ملک حیرت زدہ ہے کہ آخر یہ کس کا شر تھا کہ جس سے بے زبان اونٹنی بھی محفوظ نہیں؟یہ کس کا شر تھا جس نے دور جاہلیت کی وہ یاد تازہ کردی کہ جس کی ترجمانی جنوب ایشیا کے مشہور شاعر خواجہ الطاف حسین حالی نے ان اپنی مسدس میں ان اشعار کے زریعے کی تھی۔
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
اس بقر عید پر لوگوں کے ذہنوں میں زخمی اونٹ کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ وہ درد بھری فریادیں جو ٹانگ کٹنے پر اونٹنی اس شرانگیز شخص کے سامنے کرتی رہی جو تیز دھار آلے کے وار کررہا تھا اور دنیا خاموش تھی۔
لوگ اس پر بھی حیرت زدہ ہیں کہ آخر یہ کیسا شر تھا کہ وہاں موجود کسی بھی شخص نے اس شرانگیز کا ہاتھ نہ روکا؟اس پر بھی کہ آخر عینی شاہدین موجود ہونے کے باوجود نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ کیوں درج کرلیا گیا؟ وجہ یہ بھی ہے کہ دہشت کی مثال قائم کرنے کے نشئے میں مبتلا شخص شرانگیزی کی پستیوں کو چھو کر گم ہوگیا ہے۔ کیا اس شخص کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔ باعث حیرت یہ بھی ہے کہ اونٹنی کا مالک بھی پراسرار طور پر غائب ہے؟
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس بات پر سراہا جانا چاہیے کہ انہوں نے سانگھڑ سے زخمی اونٹنی کو فوری طورپر کراچی میں شیلٹر ہوم منتقل کرکے بہترین علاج اور ماحول فراہم کیا تاکہ اونٹنی اس شرانگیز ماحول اور گھاو کو بھول سکے جو اس پر بہیمانہ انداز میں لگایا گیا۔
پیپلزپارٹی کی قیادت سے عوام کو توقع اس لیے بھی ہے کیونکہ بھٹو خاندان جانوروں سے محبت کیلئے مشہور ہے۔کم سے کم میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ بے نظیر بھٹو کے دبئی میں ایمریٹس ہلز میں واقع گھر میں ایک بہت ہی پیاری پالتوبلی تھی جس سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب میں انٹرویو کیلئے بے نظیربھٹو کے گھر سن دوہزار سات میں گیا تھا تو وہ بلی کبھی بے نظیر بھٹو کی گود میں ہوتی تو کبھی بختاور اور آصفہ اس کے لاڈ کرتی نظر آتیں۔
اس روز میں تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے بے نظیر بھٹو کے گھر میں تھا، بے نظیر تھیں ہی ایسی کہ اگر آپ پاکستان اور دنیا ئے عالم کے حالات سمجھنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس سے اٹھنا ہی نہیں چاہیں گے،کچھ میرے ساتھ بھی اس روز ایسا ہی ہوا تھا، اس دوران میں نے کئی چیزیں نوٹ کی تھیں، ان میں یہ بھی کہ اس دور میں کمسن آصفہ بھٹو کے پاس وہ بلی سب سے زیادہ دیر رہی تھی۔ جو انٹرویو جیونیوز پر کئی بار نشر ہوا اس میں وہ بلی کبھی بے نظیر ، کبھی بختاور تو کبھی آصفہ کی گود میں دیکھی بھی جاسکتی ہے۔
گھر کے باہر بائیں بازو کی طرف ایک حصے میں کتے بھی تھے، غالباًدو کیونکہ ایک تو میں نے دیکھا لیکن ایک اور کی آواز بھی میں نے سنی تھی، میں خود اعلیٰ نسل کے کتے پالنے کا شوقین ہوں،ایک ہی وقت میں تین جرمن شیفرڈ میرے پاس رہے ہیں تو میں یہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ جو کتا بی بی کے گھر میں تھا، اسے بہت لاڈ پیار سے پالا جارہا تھا۔یقیناً بلاول بھٹو ہوں، بختاور بھٹو یا آصفہ بی بی،وہ اونٹنی کو زخمی نہیں دیکھ سکتے۔
اسی لیے جب سندھ میں ایک شرانگیز کے ہاتھوں بے زبان اونٹنی کا پیر کاٹا گیا تو مجھے یقین تھا کہ بھٹو فیملی اس معاملے کا نوٹس لے گی، اونٹنی کا ہرممکن علاج کرایا جائے گا اور اونٹنی کے مالک کو اس شرانگیز سے تحفظ دلایا جائے گا کیونکہ جو شخص اونٹ کی ٹانگ کاٹ سکتا ہے وہ دنیا بھر میں اپنی بدنامی پر اس اونٹ کے مالک کو بھی گزند پہنچانے میں کسی حد تک جاسکتا ہے۔
اللہ کرے کہ اونٹ کا مالک خیریت سے ہو اور کسی محفوظ جگہ پر ہو، تاہم لوگوں کو حیرت اس بات پر بھی ہے کہ آخر اونٹ کا مالک اونٹنی کی کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ پریس کانفرنس کرنے کے بعد غائب کہاں ہوگیا؟
غیرمعمولی بات یہ ہے کہ اونٹ کے مالک کو گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے دو اونٹ دینے کا اعلان واقعہ کے اگلے روز ہی کردیا تھا اور اب تقریباً پانچ روز گزر چکے مگر اس شخص نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی کہ گورنر اپنے وعدے پر عمل نہیں کررہے اور اسے دو اونٹ دلائے جائیں۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ ہزاروں افراد عید کے دنوں میں گورنر ہاؤس آئے، قربانی کا گوشت اور مہینے بھر کا راشن بیگ لیا۔
سونے پہ سہاگہ ایک رہنما کا یہ بیان ہے کہ گورنر سندھ زخمی اونٹنی کو دیکھنے نہ جائیں کیونکہ وہ ڈری سہمی ہے اور دباؤ کا شکار ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زخمی جانور لوگوں سے ڈرتا ہے اور اس کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں مگر سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کے جانے کے سبب ہی سہی اونٹنی کی بہتر حالت لوگوں کےسامنے آئی تو سہی، لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اونٹنی کو بہترین ماحول دیا گیا ہے جہاں وہ نئی ٹانگ لگنے تک سکھ چین کی زندگی گزار سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کےدور میں آپ سیکڑوں صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو اگر اونٹنی کے پاس جانے دیں گے تو وہ گھبرا جائےگی، اس کا حل یہ نہیں کہ گورنر یا وزیراعلیٰ اس اونٹنی کے پاس نہ جائیں، یہ جب تک جائیں گے نہیں، اپنی آنکھوں سے اسکی حالت دیکھیں گے نہیں تو شاید انکے دلوں میں اس قدر درد بھی محسوس نہ ہو جس قدر ایک زخمی جانور کی داستان سننے والے کو ہوتا ہے۔یہ جائیں گے تو اسکے بہتر علاج اور اونٹنی کے مالک کے تحفظ کیلیے اقدامات کریں گے۔
ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیلٹر ہوم کی انتظامیہ روزانہ کی بنیاد پر اونٹنی کی ویڈیو بنا کر میڈیا کو بھیج دے تاکہ لوگوں کو روز بروز اسکی صحت میں بہتری سے متعلق آگاہی ہوتی رہے۔کچھ ایسا انتظام بھی کیا جاسکتا ہے کہ درد مند اور صاحب ثروت افراد کو اسے دور سے دکھا دیا جائے تاکہ اینیمل شیلٹر کو بھی امداد ملے جو اس کار خیر میں شریک ہے، اس طرح لوگوں کو بھی آگاہی ملے گی اور ملک بھر میں جانوروں کی دیکھ بھال سے متعلق بھی ادارے مضبوط ہوں گے۔
زخمی اونٹنی کو دیکھنے جانے سے روکنے کا مطلب تو یہ ہے کہ شر پھیلانے والا شرانگیزی دکھائے اور وحشیانہ تشدد کا شکار جانور کو دیکھنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ نجی میڈیا کی ملک میں جگہ ہی اس لیے بنی تھی کیونکہ سرکاری میڈیا پر الزام تھا کہ وہ مخصوص چیزیں دکھاتا ہے۔لوگ چیزوں کو اسطرح دیکھنا چاہتے ہیں جیسے وہ ہیں نہ کہ جیسے انہیں دکھایا جاتا ہے۔
ویسے بھی سندھ لعل شہباز قلندر اور حضرت عبداللہ شاہ غازی کی دھرتی ہے۔یہ کربلا نہیں جہاں نبی کے نواسے اور انکے بہتر ساتھیوں کو شہید کردیا گیا ہو اور کوئی جسموں پر خاک ڈالنے والا بھی نہ ہو۔یہاں کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کے شر کا شکار جانور درد سے بلک رہا ہو اور اسکو دیکھنے جانیوالے درد مند افراد کسی کے کہنے پر رک جائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔