28 جون ، 2024
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال اور سینیٹر فیصل واوڈ کی معافی قبول کر لی۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے دونوں کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ پارلیمان میں عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، ہم آپ کی عزت کرتے ہیں اور امید ہے آپ بھی ہماری عزت کریں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے عوام کو نقصان ہو گا، پارلیمان میں آرٹیکل 66 سے آپ کو تحفظ ہے، باہر گفتگو کرنے سے آپ کو آرٹیکل 66 میسر نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا آپ لوگوں کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہیں، آئندہ اس معاملے میں ذرا احتیاط کریں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے آج کی کارروائی سے متعلق حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے، توقع ہے دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے، اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے جس میں کہا گیا ہے کہ نوٹس کا جواب چینلز مالکان اور چیف ایگزیکٹو کے مشترکہ دستخط سے جمع کروائے جائیں، شوکاز نوٹس کے جواب میں پریس کانفرنس سے کمائی کی تفصیل بھی دی جائے۔
قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت میں پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا انہوں نے کیا کہا تھا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں وہ الفاظ دہرا نہیں سکتا وہ آپ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے متعلق کہے گئے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا رؤف حسن کے بھائی فواد حسن کو ہم نے ریلیف دیا تھا کیا انہیں اس بات سے تکلیف ہوئی؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا رؤف حسن کی پریس کانفرنس پر توہین عدالت کی درخواست بھی آئی ہوئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا میں اپنے بارے میں کی گئی بات پر کارروائی نہیں کرتا، چیف جسٹس نے کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس کا حوالی دیتے ہوئے کہا اس سے بڑا واقعہ بھی تھا جو خوب نشر ہوا، وہ جن صاحب نے کہا تھا مجھے لٹکا دیں گولی مار دیں۔