Time 02 جولائی ، 2024
پاکستان

جانوروں پر ظلم و تشدد کے بڑھتے واقعات کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟

پاکستان میں جانوروں پر بڑھتے ظلم و تشدد کے واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں، اگرچہ پہلے یہ کیسز کم رپورٹ ہوتے تھے لیکن اب ان میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا پر ان کیسز کے بارے میں بات ہونا بھی ہے، لیکن جانوروں پر ظلم و تشدد کرنے کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے اور تشدد کرنے والے کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے؟

جیو ڈیجیٹل نے ایڈوکیٹ اور انیمل رائٹس ایکٹیوسٹ نواز ڈاہری سے گفتگو کی ہے کہ قانون جانوروں کے تحفظ کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟

نواز ڈاہری کے مطابق  پاکستان میں سب سے کمزور قانون سازی جانوروں کے حوالے سے نظر آتی ہے، جانوروں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہمارے پاس 1890 کا قانون موجود ہے، نوآبادیاتی دور کے اس قانون ’دی پریونٹیشن آف کروئلٹی ٹو اینیمل ایکٹ‘ کے تحت کسی بھی جانور کو زہر دینے اور مارنے پر سزا اور جرمانہ دونوں ہو سکتے ہیں۔

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 428 کے تحت  وہ جانور جن کی قیمت 10 روپے یا اس سے زیادہ ہے انہیں مارنے، زہر دینے، معذوری میں مبتلا کرنے اور ناکارہ بنانے والے فرد کو 2 سال کی سزا اور جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔

سیکشن 429 کے تحت50 روپے یا اس سے زیادہ مالیت کے بڑے جانوروں مثلاً اونٹ، ہاتھی، گائے، بیل، بھینس اور دیگر کو مارنے، زہر دینے یا معذوری میں مبتلا کرنے والے شخص کو 5 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔

اگر آپ کے ارد گرد کوئی جانوروں پر تشدد و ظلم کرتا پایا جائے تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جاسکتی ہے۔ 

چند روز قبل کراچی کی رہائشی خاتون نے بھی اپنے کتے کے قتل کے خلاف ایف بی ایریا تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

خاتون کے مطابق فلیٹ یونین کے 2 افراد  نے زبردستی گھر میں داخل ہوکر ان کے کتے کو قتل کیا جبکہ جائے وقوعہ سے پولیس نے گولی کا خول بھی برآمد کیا ہے۔

نواز ڈاہری نے بتایا کہ ’قانوناً ایف آئی آر درج کروائی جاسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ان کیسز کو زیادہ سنجیدگی سے لیا نہیں جاتا، اس کی وجہ معمولی جرمانہ اور سزا کا عمومی ہونا ہے، جبکہ دوسری طرف جو واقعات دیہی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں وہاں لوگوں کو جانوروں کے حقوق کا علم نہیں ہے، لہذا جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو تشدد کرنے والے اورجانور کے مالک، دونوں فریقین آپس میں ہی اپنے معاملات طے کرلیتے ہیں۔ 

’سانگھڑ میں اونٹنی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اور فوری ایکشن بھی لے لیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو سانگھڑ کی اونٹنی کا معاملہ بھی دب جاتا۔

دشمنی کا نرالہ اصول، ’بھیل‘ کیا ہے؟

دیہی علاقوں میں ایک روایت اور بھی پائی جاتی ہے جس کے تحت جانور کا کھیت میں داخل ہونا اور کچھ بھی کھانا ممنوع ہے۔

نواز ڈاہری نے دیہی علاقوں میں پائی جانے والی اس رسم کے بارے میں بتایا کہ اگر کسی کا جانور کسیدوسرے  کے کھیت میں داخل ہوجائے اور کچھ کھالے تو کھیت کا مالک تنبیہہ کے طور پر جانور کو نقصان پہچاتا ہے اور کھبی کھبی قتل بھی کردیتا ہے، اس طرح وہ جانور کے مالک سے بدلہ لیتا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ اکثر جانور کھیتوں میں داخل ہوجاتے ہیں کیونکہ بے زبان جانوروں کو انسانی قوانین کا علم نہیں ہے لیکن زمیندار یا کھیت مالکان اسے ان کے کھیتوں کو نقصان پہنچانے کا سوچا سمجھا منصوبہ تصور کرتے ہیں اور جانور کے مالک سے بدلہ لینے کے لیے معصوم جانوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس رسم کو سندھی زبان میں بھیل کہا جاتا ہے، سانگھڑ  واقعے کو بھی اسی دشمنی کی ایک قسم سمجھا جاسکتا ہے۔

جانوروں کے ساتھ انسانوں کے سلوک پر ایک نظر

سانگھڑ واقعے کے چند دن بعد ہی خبر آئی کہ راولپنڈی میں ’بااثر شخص‘ نے  حاملہ گدھی کے دونوں کان کاٹ دیے، حال ہی میں اندرون سندھ سے بھی ایک کیس رپورٹ ہوا جس میں اونٹ کی لاش ملی جس کی چاروں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں، مردہ اونٹی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین کی جانب سے شدید دکھ کا اظہار کیا گیا۔

بات صرف دیہی علاقوں کی ہی نہیں بلکہ کراچی سے بھی جانوروں پر تشدد کیے جانے کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل لیاقت آباد میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے کتے کو بالکنی سے باہر پھینک دیا تھا جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔

جانوروں کو ریسکیو کرنے والی تنظیم اے سی ایف کے مطابق اس گروپ کی قید میں 6،7   کتے مزید بھی تھے۔

گزشتہ سال بھی ایک کیس ملیر سعودہ آباد سے رپورٹ ہوا تھا جہاں ایک چوکیدار نے کتے کو چھت سے لٹکا کر مار دیا تھا۔

ہمارے ہاں کتا مار مہم میں کتوں کو زہر دے کر قتل کرنا یا انہیں گولی مار دینا عام سی بات ہے سال 2021 میں ایک سیاسی جماعت کے رہنما اور سندھ اسمبلی کے ممبر نے سگ گزیدگی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر کتا مارنے والے شہری کے لیے 108 روپے کا انعام مقرر کیا تھا، لیکن قانون کسی جانور کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔

سول سوسائٹی اور جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کتوں کو زہر دے کر قتل کرنے یا انہیں گولی مارنے کے بجائے ان کی ری ہیبلیٹیشن کی جائے۔

اونٹنی کے دل دہلانے والے واقعے پر فنکاروں کی جانب سے بھی شدید مذمت کی گئی تھی لیکن بہت سے کیسز  ایسے بھی ہیں جو رپورٹ نہیں کیے جاتے، ان پر نہ بات کی جاتی ہے نہ ہی کسی کو سزا سنائی جاتی ہے، محبت دینے والے جانوروں کے ساتھ انسانوں کا یہ رویہ انسانیت کے لیے واقعی ایک سوالیہ نشان ہے۔

مزید خبریں :