Time 11 جولائی ، 2024
بلاگ

دنیا میں الیکشنز ، پاکستان کیاسیکھے؟

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اس سال انتخابات ہوئے مگر کسی اورملک میں بڑی دھاندلی کارونا اور مقدمے بازی نظرنہیں آئی،جو یہاں حکومت بننے کے 5 ماہ بعد بھی جاری ہے۔ میں نے امریکا میں مقیم سیاسی تجزیہ کار پروفیسر عادل نجم سے یہی بات جاننے کی کوشش کی کہ آخر ان الیکشنز سے ہم کیا سبق سیکھ سکتےہیں۔

پروفیسرعادل نجم کا کہنا تھا کہ 'جمہوریت میں گند ہوتی ہے ، پوری دنیا میں جمہوریت میں گند ہوتی ہے مگر اسکا حل یعنی جمہوریت میں گند کا حل جمہوریت ہی سے نکالا جانا چاہیے۔ جب ہم جمہوریت کے سوالوں کو ، آئینی سوالوں کو، ہر چھوٹی چھوٹی چیز کو کورٹ کچہری میں لے جائیں گے، میں اس میں کسی خاص پارٹی کی بات نہیں کررہا، آپ پورا تسلسل دیکھ لیں کہ جب ہر مسئلہ میں ہم پارلیمنٹ کی جگہ عدالتوں کو اسکا ثالث بنائیں گے تو ہم نہ صرف جمہوریت کو کمزور کریں گے بلکہ عدالتوں کو بھی کمزور کریں گے'۔

دنیا میں الیکشنز ، پاکستان کیاسیکھے؟

پڑوسی ملک بھارت میں تو الیکشن شیطان کی آنت جیسے تھے کہ انیس اپریل سے یکم جون تک سات مرحلوں میں ہوئے، لوک سبھا کی پانچ سوتینتالیس نشستوں کیلئے ہوئی جنگ میں کانگریس اوراتحادیوں کے ہاتھوں نریندر مودی کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہوتے بچا مگردھاندلی کا شورمچا نہ مخصوص نشستوں کا قصہ چھڑا،سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مقابلے میں بھارت میں جمہوری بلوغت آگئی ہے؟

پروفیسرعادل نجم کا کہنا تھا کہ بھارت میں میچوریٹی ہو یا نہ ہواسکے اور بڑے مسائل ہیں۔ وہاں بہت سے اور چیزوں میں میچوریٹی نہیں،مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی میچوریٹی نہیں۔

جس برطانیہ سے پاکستان کو آزادی ملی وہاں نسبتاً قدامت پسند کنزریٹوز کوقوم نے کلنک کا ایسا ٹیکہ لگایا کہ دوصدیوں میں یہ دن نہ دیکھنا پڑا تھا۔ چھ سوپچاس رکنی ایوان میں نسبتا سینٹر لیفٹ لیبراقتدار میں ایسے آئی کہ انیس برس میں ایسا سورج چڑھتا نہ دیکھا گیا تھا، پہلی بارالیکشن لڑنے والی انتہائی دائیں بازو کی ریفارم پارٹی بھی پانچ سیٹیں لے اڑی مگرہارنے والے نے قوم کے فیصلے کے سامنے سرجھکادیا۔

دنیا میں الیکشنز ، پاکستان کیاسیکھے؟

سبکدوش وزیراعظم رشی سونک  نے کہا کہ 'مجھے معاف کیجیے،میں نے پوری توانائیاں صرف کی تھیں،مگرآپ نے واضح پیغام دیا ہے کہ برطانوی حکومت تبدیل ہو۔میں نے آپکا غصہ اورمایوسی محسوس کی اور شکست کی زمہ داری لیتا ہوں'۔

جیونیوز پرنشرسات گھنٹے کی خصوصی الیکشن ٹرانسمیشن میں جسے میں نے پروڈیوس کیا تھا،کئی اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کی گئی،سب کویقین تھا کہ نتائج خوشدلی سے قبول کیے جائیں گے اور فارم فورٹی فائیو یا فورٹی سیون کا جھگڑا نہیں ہوگا۔

فرانس میں تو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ہاتھوں خطرناک انقلاب آتے آتے رہ گیا۔ماغین لوپین کی نیشنل ریلی پارٹی کو صدر عمانویل میکروں کی سینٹریسٹ آن سونمبلا اور ژان لُوک میلاوں شاں کی قیادت میں بائیں بازو کے این ایف پی اتحاد نے الیکشن کے دوسرے راؤنڈ میں بمشکل روکا۔

یعنی میسولینی کےبعد پہلی باراٹلی میں تو انتہائی دائیں بازو کی حکومت بن گئی،فرانس کے لبرل عوام ایڑھی چوٹی کا زور لگا کراس خطرناک رجحان کے سامنے ڈھال بن گئے۔انتہائی دائیں بازو کےرہنماؤں نے اپنے خلاف جوڑ توڑپراعتراض تو کیا مگرکورٹ کچہری نہ ہوئی۔

پروفیسرعادل نجم کا کہنا تھا کہ 'فرانس کے الیکشنز میں میرے خیال میں ایک بات بہت اہم تھی اور وہ یہ کہ یہ الیکشن اسٹریٹیجک تھے، یہ یقینی طورپر حکمت عملی کی جیت تھی، یعنی جوڑ توڑ کی جیت تھی'۔

دنیا میں الیکشنز ، پاکستان کیاسیکھے؟

ایران میں قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی کے انتقال سے پیدا خلا اصلاح پسند ہارٹ سرجن مسعود پازیشکیان نے پُر کیا۔قدامت پسند حریف سعید جلیلی کو ایک ایسے شخص کے ہاتھوں شکست ہوئی جنہیں اس سے پہلے صدارتی امیدواربننے کے بھی قابل نہیں سمجھا گیا تھا۔یہاں بھی معاملہ خوش اسلوبی سے کیسے نمٹ گیا؟

پروفیسر عادل نجم کے نزدیک 'ایران کے الیکشن کی دنیا میں اتنی بات نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے۔ لیکن آپ پچھلے تمام الیکشنز دیکھ لیں وہ سارے ہی دلچسپ تھے۔ یہ بہت حد تک محدود ہوتے ہیں کیونکہ سسٹم آزاد نہیں، وہ بہت سے لوگوں کو اجازت نہیں دیتا مگر جب فیصلہ ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کےدرمیان مقابلہ ہے تو الیکشن بھرپور ہوتا ہے اور اس میں کئی بار کسی نہ کسی قسم کا سرپرائز ہوتا ہے جو اس بار بھی ہوا'۔

اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ ہرالیکشن میں ہمیں دھڑکاکس بات کا ہوتا ہے ؟

پروفیسرعادل نجم کا کہنا تھا کہ 'شاید ہم جمہوری حقوق سے اتنا ڈر جاتے ہیں کہ کہیں غلط بندہ نہ آجائے۔ ہم اس غلط بندے کو نہ لانے کے لیے ہر قسم کا محاذ کھڑا کردیتے ہیں اور یہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ جمہوریت یہ نہیں ہوتی کہ میں بہتر لیڈر منتخب کروں گا، جمہوریت یہ ہے کہ میں جسے بھی لیڈر منتخب کروں، اگر اسکے ووٹ زیادہ ہیں تو اس وقت وہ ہی لیڈر ہے'۔

اس سال ابھی امریکا سمیت درجنوں ممالک میں انتخابات باقی ہیں،یہ طے ہے کہ جہاں اداروں کو عوام کے انتخاب پراعتماد ہے اور جمہوری بلوغت ہے وہاں الیکشن کےبعد پاکستان کی طرح فارم فورٹی فائیو اورفورٹی سیون کے قصے، بے یقینی اورمقدمے بازی نہیں ہوگی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔