13 جولائی ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک بے مثال سیاسی طاقت ملنے سے ایک دن قبل ہی لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت اپنے فیصلے میں حکومت اور فوج کی جانب سے عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کیخلاف 9؍ مئی کی سازش اور ریاست کیخلاف جنگ کے الزامات کی تائید کر چکی ہے۔
اگر جمعہ کی پیشرفت کو پی ٹی آئی اور اس کی اعلیٰ قیادت کیلئے ایک بڑی سیاسی کامیابی سمجھا جائے تو جمعرات کو لاہور کی عدالت کی جانب سے سنایا جانے والا فیصلہ عمران خان اور ان کی جماعت کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت وہ پہلا عدالتی فورم بن چکی ہے جس نے اس بات کی تائید کی ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں نے 9 مئی کو ریاست مخالف سازش کی۔
9 مئی کے مقدمے میں عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کرتے ہوئے، انسداد دہشت گردی عدالت اول لاہور کے جج خالد ارشد نے استغاثہ کے اس نظریے کی تائید کی کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور مظاہرین/ ملزمان کے ساتھ مل کر مبینہ مجرمانہ سازش تیار کی، اس پر عمل کیا اور ان سب کا مقصد ریاست کیخلاف جنگ چھیڑنا تھا۔
عدالت عمران خان کے اس الزام سے قائل نظر نہیں آئی کہ انہیں سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپنے چار صفحاتی فیصلے میں عدالت نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے، لکھا ہے کہ درخواست گزار (عمران خان) کی جانب سے سرکاری شکایت کنندہ کیخلاف سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا الزام مبینہ بددیانتی ہے اور کوئی زیرک شخص اس کا قائل نہیں ہو سکتا۔
مظاہرہ کرنے والا ایک پرامن شخص اس وقت دہشت گرد بن جاتا ہے جب وہ مجرمانہ سازش کرے، اسے پھیلائے، اور دوسرے ملزمان کے ساتھ مشترکہ مقصد کے تحت دوسرے [مسلح] افراد کے ساتھ مل کر سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، جیسا کہ جناح ہاؤس کے ساتھ کیا گیا، یہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 6 کے تحت اقدام ہے جس میں سرکاری مشینری کو جام کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا۔
اس طرح وہ شخص اپنے عمومی قانون پسند شہری کی حیثیت سے اپنے حقوق کھو دیتا ہے۔ تفتیش میں رکاوٹ نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس سے استغاثہ شواہد جمع نہیں کر پائیں گے۔ قبل از گرفتاری ضمانت کی ایک غیر معمولی رعایت معصوم شخص کیلئے ہے نہ کہ ایسے درخواست گزار کیلئے جس نے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور مظاہرین/ ملزمان کے ساتھ مل کر حکومت گرانے کیلئے ریاست کیخلاف جنگ چھیڑ کر مبینہ مجرمانہ سازش کو عملی جامہ پہنایا۔
شواہد کے حوالے سے عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیکشن ضابطہ فوجداری کے سیکشن 161 کے تحت دو پراسیکوشن گواہان (پی ڈبلیوز) کے بیانات میں یہ بات شامل ہے کہ درخواست گزار (عمران خان) نے سات مئی 2023ء کو شام سوا پانچ بجے سے چھ بجے کے درمیان زمان پارک میں پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کی۔
پی ٹی آئی کے 15 رہنماؤں کو ہدایت کی کہ انہیں 9 مئی کو اسلام آباد میں گرفتاری کا خدشہ ہے۔ ان کی گرفتاری پر آپ سب ڈاکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اکٹھا کریں گے اور ان کی رہائی کیلئے حکومت اور مسلح اداروں پر دباؤ ڈالنے کیلئے فوجی تنصیبات، سرکاری املاک اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کریں گے۔ جس پر انہوں نے(شریک ملزمان نے) جواب دیا کہ وہ [عمران خان] ان کی ریڈ لائن ہیں اور وہ پی ٹی آئی کارکنوں کو اکسا کر حکومت کو جام کر دیں گے۔
مزید برآں درخواست گزار نے 9 مئی کو اسلام آباد روانگی کے وقت ویڈیو پیغام بھیجا کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ملک کی حالت سری لنکا جیسی ہو جائے گی اور یہ ویڈیو کلپ استغاثہ نے ٹرانسکرپٹ کے ساتھ پیش کیا ہے۔
درخواست گزار کا ایک اور ویڈیو کلپ بھی 9 مئی کو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے پورا دن نشر کیا گیا تاکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو احتجاج کیلئے نکلنے پر اکسایا جا سکے اور اس اقدام کو ’’حقیقی آزادی، حقیقی آزادی کیلئے حقیقی جہاد‘‘ قرار دیا۔
درحقیقت درخواست گزار کیخلاف استغاثہ کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے مبینہ مجرمانہ سازش تیار کی جس پر اعلیٰ قیادت (ملزمان) نے اتفاق کیا اور جدید آلات کی مدد سے آن لائن مظاہرین/ملزمان تک پہنچایا جنہوں نے مبینہ طور پر اکسائے جانے پر حملہ کیا۔ حکومت کو خوفزدہ کرنے کے ارادے سے ریاست کیخلاف جنگ چھیڑتے ہوئے جناح ہائوس میں زبردستی داخل ہوئے اور اسے آگ لگا دی۔
جج نے اپنے اختتامیے میں پیمرا، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اور انٹرنل سیکیورٹی کی رپورٹس کا بھی حوالہ دیا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونا چاہتا تھا اور اس گرفتاری کو اگست میں سپریم کورٹ آف پاکستان غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ درخواست گزار نے پی ٹی آئی کارکنوں کے احتجاج کی مذمت کی اور تشدد کے مبینہ واقعات سے خود کو الگ رکھا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کیخلاف 200 سے زائد جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ہیں اور جب انہیں اقتدار کی راہداریوں سے بے دخل کیا گیا تو انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عمران خان کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ استغاثہ کے تینوں گواہان (پی ڈبلیوز) جنہوں نے یکم مئی 2023ء کو چکری میں اور سات مئی اور 9 مئی کو زمان پارک میں مبینہ سازش کے حوالے سے بات چیت سننے کا دعویٰ کیا ہے، انہوں نے اپنے حکام بالا کے سامنے اس کا انکشاف نہیں کیا، کسی کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا، ان کے نام ایف آئی آر میں کہیں بھی موجود نہیں، اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے متعلقہ وقت پر واقعہ کی مبینہ جگہ پر اپنی موجودگی کا دعویٰ نہیں کیا۔
آخر میں، وکیل نے دلائل میں کہا کہ درخواست گزار (عمران خان) مبینہ طور پر وقوعہ کی جگہ پر ذاتی طور پر موجود نہیں تھے اور سوشل میڈیا اور پیمرا کی رپورٹ سے متعلق شواہد وہ ثبوت ہیں جو درخواست گزار کے کیس میں مزید انکوائری کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا، درخواست گزار ضمانت قبل از گرفتاری کا حقدار ہے بصورت دیگر اس کی توہین ہوگی۔