Time 25 جولائی ، 2024
پاکستان

پنجاب پولیس صوبہ بھر میں 30 فیصد جرائم میں کمی کے دعویٰ کو درست ثابت کرنے میں ایک مرتبہ پھر ناکام

پنجاب پولیس صوبہ بھر میں 30 فیصد جرائم میں کمی کے دعویٰ کو درست ثابت کرنے میں ایک مرتبہ پھر ناکام
فوٹوبشکریہ پنجاب پولیس

پنجاب پولیس نے جیو فیکٹ چیک کی رپورٹ کو سختی سے متنازعہ قرار دیا جس میں بتایا گیا تھا کہ 2023 میں صوبے بھر میں رجسٹرڈ جرائم کے کیسز میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 ان اعتراضات کے باوجود صوبائی پولیس چیف اپنے محکمے کے مؤقف کی تائید کرنے والا کوئی ڈیٹا، حقائق یا ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

13 مئی کو جیو فیکٹ چیک نے وزیر داخلہ محسن نقوی کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے ایک رپورٹ جاری کی، انہوں نے 2023 میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اپنے دور میں جرائم کی شرح میں 30 فیصد نمایاں کمی کا دعویٰ کیا تھا۔

محسن نقوی جنوری 2023 سے فروری 2024 تک صوبہ پنجاب کی سربراہی کر چکے ہیں۔

وزیر داخلہ کے بیانات کے برعکس، جیو فیکٹ چیک کی جانب سے کئے گئے حقائق پر مبنی تجزیے نے ایک واضح حقیقت کا انکشاف کیا:

 2022 کے مقابلے میں 2023 میں تمام رجسٹرڈ جرائم کے کیسز میں 46 فیصد اضافہ ہوا، جو پولیس کے سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوئے اور جسے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (HRCP) نے بھی رپورٹ کیا ہے۔

درحقیقت، صوبے میں گزشتہ برس کے دوران ریپ، گینگ ریپ، قتل اور تیزاب پھینکنے جیسے گھناؤنے جرائم میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

جیو فیکٹ چیک کی رپورٹ کے جواب میں پنجاب پولیس نے 15 مئی کو ایک پریس ریلیز جاری کی، جس میں رپورٹ کی درستگی سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ اس میں کئی اہم عوامل کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا کہ”سال 2023 میں جرائم کی فری رجسٹریشن کی پالیسی اختیار کی گئی، اس پالیسی کے تحت سال 2022 میں ہونے والے جرائم برخلاف پراپرٹی کے 1 لاکھ 30 ہزار ایسے تمام پرانے کیسز جن کی ایف آرز ماضی میں رجسٹر ڈ نہیں کی گئی تھیں، سال 2023 میں ان کی ایف آئی آرز درج کی گئیں۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ پریس ریلیز میں دیگر تمام کیٹیگریز کے جرائم کو نظر انداز کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ، پریس ریلیز میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ”یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مصدقہ طریقہ کار کے تحت پولیس ایمر جنسی ہیلپ لائن 15 پر موصولہ کالز ہی درحقیقت کرائم بر خلاف پراپرٹی کے کیسز کا اصل پیمانہ ہوتی ہیں ،لہذا جب جنوری تا نومبر 2023 تک ہیلپ لائن 15 کی موصولہ کالز کے ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا تو درحقیقت پنجاب بھر میں جرائم برخلاف پراپرٹی کی کالز میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔“

پنجاب پولیس کے دعوؤں کی تصدیق کرنے کےلیے جیو فیکٹ چیک نے صوبہ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور سے رابطہ کیا۔

ان تمام ایف آئی آرز کی کاپی کے لیے درخواستیں کی گئیں جو 2022 میں درج نہیں ہوئیں لیکن 2023 میں شامل کی گئیں، خاص طور پر ریپ، گینگ ریپ، قتل، غیرت کے نام پر قتل، ڈکیتی، تیزاب پھینکنا، اقدام قتل، اغوا ،گمشدگی، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، کار چوری اور لڑائی جھگڑا۔

جیو فیکٹ چیک نے 15 مئی سے ڈاکٹر عثمان انور کو ای میلز اور واٹس ایپ کے ذریعے متعدد بار یاد دہانی کروائی تاکہ پنجاب پولیس کے دعوؤں کو سپورٹ کرنے والا ڈیٹا فراہم کیا جا سکے۔

آخر کار انہوں نے ایک ماہ بعد 15 جون کو جواب دیا اور جیو فیکٹ چیک کی ٹیم کو 24 جون کو اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف آپریشنز زاہد نواز مروت سے ملاقات کی دعوت دی۔

لیکن زاہد نواز نے مطلوبہ ڈیٹا کے لیے جیو فیکٹ چیک کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مانیٹرنگ پنجاب (ڈی ایس پی) کے پاس بھیج دیا۔

10 دن تک ڈیٹا کا انتظار کرنے کے بعد بھی، ڈی ایس پی نے صرف جیو فیکٹ چیک کو ایک سادہ مائیکروسافٹ ایکسل شیٹ بھیجی جس میں ”تاخیر شدہ ایف آئی آرز“ کے8 ہزار 89 کیس درج تھے، جن کے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ یہ 2022 کے جرائم 2023 میں درج کیے گئے تھے۔

8 ہزار 89 جرائم میں سے2 ہزار 9 ایف آئی آرز ”جرائم برخلاف پراپرٹی“ کے طور پر درج کی گئیں۔

جبکہ مئی کی اپنی پریس ریلیز میں، پولیس نے اصرار کیا تھا کہ صرف ”جرائم برخلاف پراپرٹی“ کی کیٹیگری میں، 2022 میں 1 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ مقدمات رجسٹرڈ نہیں ہوئے اور بعد میں 2023 میں سسٹم میں شامل کیے گئے۔

صرف یہی نہیں، مائیکروسافٹ ایکسل شیٹ میں صرف کچھ کیسز کے لیے ایف آئی آر نمبر فراہم کیا گیا، جس سے جیو فیکٹ چیک کے لیے آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق کرنا مشکل ہو گیا کہ آیا پولیس کی فراہم کردہ معلومات بھی درست تھیں۔

یہ ایکسل شیٹ 2023 میں ہونے والے گھناؤنے جرائم کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتی ہے، جیسا کہ جیو فیکٹ چیک نے درخواست کی تھی۔

جیو فیکٹ چیک اپنی رپورٹ پر قائم ہے۔

مزید خبریں :