Time 24 ستمبر ، 2024
پاکستان

مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ، یہ صورت حال آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے: سابق صدر سپریم کورٹ بار

مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ، یہ صورت حال آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے: سابق صدر سپریم کورٹ بار
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر احسن بھون نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں تحریک انصاف نہ الیکشن کمیشن کے پاس گئی نہ پشاور ہائی کورٹ گئی اور نہ ہی سپریم کورٹ آئی۔۔ لیکن سپریم کورٹ نے آرٹیکل 187 کے تحت کہہ دیا کہ ہم مکمل انصاف کرسکتے ہیں۔

پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کیساتھ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورت حال ہو جائے تو پھر یہ آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ کل دو فریقین کے درمیان جائیداد کا جھگڑا آئے تو سپریم کورٹ کسی تیسرے فریق کے حق میں فیصلہ دے دے گی۔

اسی پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما انتظار پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ سب سےبڑی عدالت کے سب سے بڑے بینچ نے جو اکثریتی فیصلہ دیا ہے وہ ہی قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر قانون کی جانب سے دیا جانے والا بیان افسوس ناک ہے، یہ نہ تو جمہوری رویہ ہے نہ ہی قانونی۔ اس وقت یہ فیصلہ ہی معتبر ہے۔

پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے مزید کہا کہ ججز کی توسیع کے معاملے پر پی ٹی آئی اسٹریٹ ایجیٹیشن کی طرف جائے گی اور ہر طرح کا احتجاج کرے گی۔ ہم اپنے پاس موجود تمام آپشنز استعمال کریں گے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، انتخابی نشان نہ ملنے سے سیاسی جماعت کا الیکشن لڑنے کا آئینی حق متاثر نہیں ہوتا۔

تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا گیا۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق الیکشن رول 94 خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کردیا۔

عدالت نے قراردیا کہ الیکشن رول 94 خلاف آئین اور غیرمؤثر ہے، رول 94 الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 51 اور 106 کے منافی ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر اپنے ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے باوجود قانونی سوال موجود ہے جو معاملہ ہے اس نے ملکی قانون کے مطابق طے ہونا ہے، موجودہ قوانین کے مطابق یہ سیٹیں کیسے ایلوکیٹ ہونی ہیں اس کا جواب فیصلے میں نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔

وزیرقانون کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ گیا، وہاں پانچ جج صاحبان نے فیصلہ دیا، کبھی ایم این ایز کا یہ کیس نہیں رہا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں، انہوں نے اپنے حلف نامے دیے کہ ہم سنی اتحاد کونسل سے ہیں، سماعت میں دو ہی پوائنٹس تھےکہ سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں مل سکتی ہیں یانہیں، آئین کی تشریح اس طرح نہیں ہونی چاہیے کہ اس کی ہئیت ہی بدل جائے۔

سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ذرائع نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا۔

ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے نے الیکشن ایکٹ کو غیرفعال بنادیا ہے، الیکشن کمیشن اب کس قانون کے تحت کام کرے؟

ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر ناکارہ کردیا گیا ہے۔

مزید خبریں :