02 اکتوبر ، 2024
سپریم کورٹ میں 63 اے کے فیصلے پر نظرثانی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور پیپلزپارٹی کے رہنما و وکیل فاروق ایچ نائیک کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔
دوران سماعت فاروق نائیک نے کہا کہ دو مختلف اختیار کے تحت سماعت غیر آئینی ہے، آرٹیکل 186کے تحت رائے صدر پر بائنڈنگ نہیں، کئی ملکوں میں تو کہاجاتا ہے فلور کراسنگ سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔
انہوں نے دلائل میں کہا کہ انڈیا کے آئین میں بھی فلور کراسنگ کی ممانعت ہے لیکن وہاں ووٹ شمار ہوتا ہے، اس فیصلے سے تو آئین میں تحریف کر دی گئی کہ ووٹ شمار ہی نا کیا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں ہم کل رہتے بھی ہیں یا نہیں، اگر ججزکمیٹی میں ایک ممبرانکار کردیں توکیا ہونا چاہیے؟ آپ تجویز دے دیں، ہم وہ تجویز آنے والے چیف جسٹس پاکستان تک پہنچادیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال تو ہماری رائے یہی ہے 2ججزکی کمیٹی اپنےامورجاری رکھ سکتی ہے۔ اس دوران وکیل عمران خان علی ظفر نے کہا کہ فیصلہ لکھنے والے جج کوبینچ میں ضرورہوناچاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہمارے پاس ایسا اختیار ہے ہم کسی کوپکڑکربینچ میں بٹھا سکیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی خودبینچ میں نہ آناچاہے توکیاہم جرگہ لیکر جائیں؟ بتائیں ہم کیا کریں؟
علی ظفر نے کہاکہ عدالت کو اس کیس میں جلدی کیا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تقریباً ڈھائی سال بعد کیس لگ رہا ہے اور آپ اسےجلدی کہہ رہےہیں، طویل سماعت کے باوجود آپ نےکیس کے میرٹس پرایک لفظ بھی نہیں کہا، فرض کریں ایک وزیراعظم اپنےدفتر کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرے، اس وزیراعظم کے اپنے ممبر اسے ہٹانا چاہیں تو اس فیصلے سے وہ راستہ بندکردیاگیاہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ اس عدالتی فیصلےکی موجودگی میں تو اپوزیشن بھی تحریک عدم اعتماد نہیں لاسکے گی، پارلیمنٹ خود سے چاہے تو آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 136 ختم کر دے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری استدعا ہے سپریم کورٹ کیلئے کچھ کریں۔ اس پرجسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ صاحب نے بہت کوششیں کیں۔
وکیل پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا میں فلورکراسنگ کا تصور ہے، ان ممالک کامانناہے فلورکراسنگ سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی باتیں نہ کریں کہیں آپ کو آپ کی پارٹی نکال نہ دے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ میری ایک بارصدر آصف زرداری سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا ایسا قانون نہ بنانا جو کل تمھارے آگے آئے۔ عدالت نے 63 اے کے فیصلے پر نظرثانی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔