11 اکتوبر ، 2024
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کی نظرثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
23 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
آرٹیکل 63 اے کے فیصلےکیخلاف نظرثانی درخواست کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہاکہ آئین کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کر سکتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدرعارف علوی نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سفارش پر اسمبلی تحلیل کی، اُس وقت کے تین آئینی عہدے داروں صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئین سے انحراف کیا۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے سے متعلق 17 مئی 2022 کا عدالتی فیصلہ آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اکثریتی ججزکا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے ، اقلیتی ججز کی رائے کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے جسٹس منیب اختر کے لکھے فیصلے میں ارکان پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال افسوسناک ہے، جسٹس منیب کا اکثریتی فیصلہ آرٹیکل 63 اے میں دی گئی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کے خلاف ہے۔
فصیلے میں کہا گیا کہ جسٹس منیب اختر کے اکثریتی فیصلے نے آئین بنانے والوں کی حکمت عملی کوبدل دیا ،کہیں نہیں لکھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمارنہیں ہوگا، آرٹیکل 63 اے میں نہیں لکھا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے کا ووٹ شمار نہیں ہوگا اور ایسا رکن خود بخود ڈی سیٹ ہو جائے گا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق اکثریتی ججزنے آئین میں یہ از خود شامل کر دیا، ان کے فیصلے نے پارٹی سربراہ، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا اختیارختم کردیا، آئین تو دورکی بات، قانون کے دیے گئے اختیارات کو بھی کوئی جج یا عدالت ختم نہیں کرسکتی۔