23 اکتوبر ، 2024
ہماری پارلیمانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے اس ملک میں جہاں طاقت ہے وہیں ’اقتدار‘ چاہے برسر اقتدار کوئی بھی ہو۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ 26ویں آئینی ترمیم میں اس نکتہ کا جواب تلاش کروں مگر بات پارلیمان سے شروع ہوکر عدلیہ پر ختم ہو گئی۔ رات کے اندھیرے سے صبح کے اجالے تک بڑی دھواں دار تقریریں ہوئیں ایک چیف جسٹس سے لے کر دوسرے چیف جسٹس تک سب کو ذمہ دار قرار دیا گیا جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا، کیا افتخار چوہدری اور کیا ثاقب نثار، کاش دو الفاظ ’میثاق جمہوریت‘ کی اصل وجہ کیلئے بھی ادا کردیئے جاتے۔ یہ کیوں ہوا تھا اور آج جو حکومت قائم ہے کیا ایک آزاد، غیر جانبدار انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ اگر 2018 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جیسا کہ 2024 میں تو ان دونوں کے پیچھے کون تھا کیا اس کا جواب اس 26ویں آئینی ترمیم میں ملتا ہے۔
’جمہوریت کے چیمپئن‘ میں سے کسی کی زبان سے یہ سننے کو نہیں ملا کہ اس ملک میں آج تک آئین کے آرٹیکل 6- پر عمل کیوں نہ ہوسکا نہ جنرل ضیاء کا ذکر نہ اس کے دور کی ترامیم کا، نہ جنرل پرویز مشرف نہ ہی 17ویں آئینی ترمیم کا جس نے مشرف کے دور کے اقدامات کو تحفظ دیا۔ بات 58-2(B)کی جس نے تین سابق وزرائے اعظم کو گھر بھیجا محمد خان جونیجو، محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف مگر حضور یہ بھی تو بتاتے کہ ہر مرتبہ جب کسی وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا تو پہلا ’خیر مقدمی بیان‘ کس کا آتا تھا۔ 1954 سے لیکر آج تک اگر اس ملک میں جمہوری نظام ڈی ریل ہوا ہے تو اس کی ذمہ داری طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کو تو دی جاسکتی ہے محض ایک ادارے کو نہیں اور جسکی سہولت کاری میں اس وقت کی سیاسی قوتیں رہی ہیں۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم جمہوری نظام یا آئین کو بچاسکتی ہے تو خدارا اس کونکال دے اور اگر آزمائش شرط ہے تو جس دو تہائی اکثریت سے یہ ترمیم منظور ہوئی ہے اسی اکثریت سے شہباز شریف کی جگہ میاں محمد نوازشریف کو وزیر اعظم بناکر دیکھ لیں۔
بات بہت سادہ سی ہے اس ترمیم کو لانے کی ’ڈیڈ لائن‘ 23اکتوبر تھی وگرنہ اتنی جلد بازی، 18ویں ترمیم میں تو 9ماہ لگ گئے تھے اور ظاہر ہے اس کی بنیادی وجہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی اور جسٹس منصور علی شاہ کی بحیثیت چیف جسٹس تقرری تھی۔ قاضی صاحب کو میں یہ کریڈٹ ضرور دوں گا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس عمر بندیال کی طرح نہ 184-3کا استعمال کیا نہ ہی ہر سماعت میں من پسند بینچ تشکیل دیا البتہ ان کا سب سے متنازع فیصلہ بہرحال وہی کہلائے گا جس کے نتیجہ میں ایک سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ البتہ قاضی صاحب نے بعض مقدمات کی براہ راست کوریج کا اہتمام کرکے ایک احسن فیصلہ کیا کیونکہ بہرحال عوام کو جاننے کا حق ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے دوران اسلام آباد سیاست کا مرکز بنا رہا۔ اس میں سب سے زیادہ متحرک دو ہی شخصیات نظر آئیں ایک پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دوسرے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان۔ مگر ایک اہم ترین شخصیت جو منظر نامہ سے دور رہی وہ ہےپشتون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جو اس تقریباً نامعلوم چھ جماعتی اتحاد کے سربراہ تھے جس میں پاکستان تحریک انصاف، بی ایل پی (مینگل) بھی تھے۔ اس پورے پروسیس میں پی ٹی آئی سیاسی طور پر کمزور نظر آئی اس نے اپنا سارا وزن مولانا کے پلڑے میں ڈال دیا اور آخری وقتوں میں وہ اسی پر مطمئن ہو گئے کہ اس ترمیم سے کچھ متنازع شقیں نکال دی گئی ہیں اور بس انہوں نے ووٹ نہ ڈالنے پر اکتفا کیا۔ رہ گئی بات مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی تو اس ترمیم سے کم از کم ان کو وقتی سکون شاید حاصل ہو جائے ’اعلیٰ عدلیہ‘ کی طرف سے مگر ہماری پارلیمانی تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔ تین مثالیں دے کر آگے بڑھتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اصل مسئلہ اعلیٰ عدلیہ یا چیف جسٹس کا نہیں ہے۔
صدر میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا نے اپنی کابینہ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنایا اور پھر اکتوبر 1958 کو مارشل لا بھی لگا دیا اور دو ہفتہ بعد ہی ایوب نے مرزا صاحب کو گھر بھیج دیا۔ دوسری مثال ذوالفقار علی بھٹو کی، اپنے تئیں ایک کمزور جنرل ضیاء الحق کو سات جنرلوں پر ترجیح دیکر چیف لگایا اور پھر انہی موصوف نے 5جولائی، 1977کو نہ صرف مارشل لا لگایا بلکہ دو سال بعد اپنے ہی محسن کو پھانسی بھی دے دی۔ تیسری مثال جنرل پرویز مشرف کو تین جنرلوں پر ترجیح دے کر سابق وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف لگایا اور سال بھر میں ہی مشرف صاحب نے یہ ’احسان‘ اتار دیا 12اکتوبر 1999کو۔ اب ان تینوں حضرات کو اپنے غیرآئینی اقدامات کو تحفظ دینے کیلئے ’من پسند‘ عدلیہ اور چیف جسٹس لانے پڑےجس نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کیا وہ گھر گیا اسی لئے تاریخ آج ان ججوں کو اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے ۔ لہٰذا اس 26ویں ترمیم ایسا کوئی تحفظ عدلیہ کو حاصل نہیں، کل جب کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنا ہوگا تو یاد رکھیں اسی طرح کے ’آئینی بینچ‘ کے ذریعے بھیجا بھی جائے گا اور یہی بینچ اس پورے عمل کو ’آئینی اور قانونی‘ بھی کہے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ’آج پارلیمان آزاد ہوگئی‘۔ اگر ایسا ہے تو وہ بلاول بھٹو کے ساتھ مل کر ’میثاق جمہوریت‘ کو مکمل طور پر نافذ کرکے دکھائیں۔26ویں ترمیم کو منظور کرانے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے اس پورے عمل میں اگر کوئی جماعت سب سے کمزور نظر آئی تو وہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)۔
تصور کریں مولانا فضل الرحمان 13 سیٹوں پر مرکزی لیڈر نظر آئے اور شاید بلاول زندگی میں مولانا کے پاس اتنی بار نہ گئے ہوں جتنے پچھلے ایک ہفتہ میں اور دوسری طرف ایم کیو ایم 22سیٹوں کے ساتھ بھی بے بسی کی تصویر۔ کہتے ہیں انہیں 27ویں آئینی ترمیم کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جس کا میمو بااختیار بلدیاتی نظام ہے جس کو اصولی طور پر تو 18ویں ترمیم کے بعد بااختیار ہونا چاہئے تھا۔ مگر جو حال اس وقت بدقسمتی سے ایم کیو ایم کا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی متحدہ کے پاس اسی تنخواہ پر کام کرنے کے سوا آپشن نہیں ہے۔ البتہ ایم کیو ایم کی قیادت نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو یہ باور کرایاہے کہ اگر انکی جماعت کی حمایت نہ کی گئی تو اسکا فائدہ پی پی پی کو نہیں پی ٹی آئی کو ہوگا کراچی اور حیدرآباد میں۔
’میثاق جمہوریت‘ یقینی طور پر بے نظیر بھٹو شہید کا خواب تھا مگر وہ اب تک خواب ہی ہے اگر یقین نہ آئے تو بلاول اور نوازشریف اسکو دوبارہ پڑھ لیں اور ’میثاق‘ کے مطابق ’ایک حقائق کمیٹی‘ بنا ڈالیں کارگل پر نہ سہی (جس کا ذکر میثاق میں موجود ہے) صرف کارکردگی پر بنا ڈالیں۔ چلیں کمیشن یہ فیصلہ کرے کہ اس ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا کون کون ذمہ دار ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ہم 1973ءسے صرف ترامیم کرکے آئین کی ’پیوند کاری‘ میںل گے ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں 26ویں آئینی ترمیم کیا گل کھلاتی ہے کون محفوظ رہتا ہے اور کون طاقتور۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔