25 اکتوبر ، 2024
اس موسم میں گریپ فروٹ عام ملتے ہیں اور کم کیلوریز والا یہ پھل صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔
وٹامن سی اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہونے کے باعث یہ پھل دل، مدافعتی نظام اور جسم کے دیگر اعضا کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں اس پھل کے متعدد فوائد ثابت ہوچکے ہیں اور اسے چند بہترین ترش پھلوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے چند فوائد درج ذیل ہیں۔
گریپ فروٹ میں غذائی اجزا کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پر فائبر، 15 سے زیادہ وٹامنز اور منرلز اسے کھانے سے جسم کا حصہ بنتے ہیں۔
آدھے گریپ فروٹ کو کھانے سے 52 کیلوریز، 13 گرام کاربوہائیڈریٹس، ایک گرام پروٹین، 3 گرام فائبر، وٹامن سی، وٹامن اے، پوٹاشیم، فولیٹ، میگنیشم اور Thiamine جیسے اجزا جسم کا حصہ بنتے ہیں۔
اس سے ہٹ کر کئی طاقتور کیمیائی مرکبات بھی اس پھل میں موجود ہوتے ہیں۔
گریپ فروٹ کو اکثر کھانے سے مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے۔
اس میں وٹامن سی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس وٹامن کی اینٹی آکسائیڈنٹ خصوصیات خلیات کو نقصان دہ بیکٹیریا اور وائرسز سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ وٹامن سی کے زیادہ استعمال سے لوگوں کو موسمی نزلہ زکام سے جلد نجات پانے میں مدد ملتی ہے۔
اسی طرح گریپ فروٹ میں موجود دیگر وٹامنز اور منرلز سے بھی مدافتی نظام کو فائدہ ہوتا ہے، جیسے وٹامن اے سے جسمانی ورم میں کمی آتی ہے اور متعدد متعدی امراض سے تحفظ ملتا ہے۔
اس پھل میں بی وٹامنز، آئرن، زنک اور کاپر جیسے اجزا بھی کچھ مقدار میں موجود ہوتے ہیں اور یہ سب مدافعتی افعال کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
گریپ فروٹ کھانے سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن یا رات کو کھانے سے قبل آدھا گریپ فروٹ کھانے سے 12 ہفتوں میں جسمانی وزن میں 2 کلو کے قریب کمی آتی ہے۔
البتہ گریپ فروٹ کے جوس سے یہ فائدہ نہیں ہوتا اور اگر آپ ادویات استعمال کر رہے ہیں تو اس پھل کو ڈاکٹر کے مشورے سے ہی استعمال کریں۔
گریپ فروٹ کو اکثر کھانے سے انسولین کی مزاحمت کی روک تھام ہوتی ہے اور ذیایبطس سے متاثر ہونے کا خطرہ گھٹ جاتا ہے۔
انسولین کی مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب خلیات انسولین پر ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
انسولین ایک ہارمون ہے جو جسم کے متعدد افعال کے لیے ضروری ہوتا ہے، خاص طور پر بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔
انسولین کی مزاحمت سے خون میں انسولین اور بلڈ شوگر کی سطح بڑھتی ہے اور یہ دونوں ذیابیطس ٹائپ 2 کا باعث بننے والے اہم عناصر ہیں۔
گریپ فروٹ کھانے سے انسولین کی سطح کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد ملتی ہے جس سے انسولین کی مزاحمت کا خطرہ گھٹ جاتا ہے۔
اس پھل کو کھانے سے دل کی صحت کو بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ بلڈ پریشر اور بلڈ کولیسٹرول جیسے مسائل کا خطرہ کم کرتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ گریپ فروٹ کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔
گریپ فروٹ میں ایسے اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہوتے ہیں جو جگر کو امراض سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
جانوروں پر ہونے والے تحقیقی کام میں دریافت کیا گیا کہ یہ پھل جگر کو انجری سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی ثابت ہوا کہ گریپ فروٹ میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس سے جگر کے ورم میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔
اس پھل کو کھانے سے گردوں میں پتھری جیسے تکلیف دہ مرض سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ہمارا میٹابولزم اپنے افعال کے دوران مختلف قسم کا مواد بھی خارج کرتا ہے جن کو گردے پیشاب کے ذریعے خارج کر دیتے ہیں۔
مگر جب یہ مواد جب زیادہ مقدار میں اکٹھا ہو جاتا ہے تو گردوں میں پتھری کا سامنا ہوتا ہے اور گریپ فروٹ میں موجود Citric ایسڈ اس مسئلے سے بچانے کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
گریپ فروٹ جیسے کھٹے پھلوں میں وٹامن سی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے۔
وٹامن سی ہڈیوں کے حجم میں آنے والی کمی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ایک گریپ فروٹ میں 88 ملی گرام تک وٹامن سی ہوسکتا ہے جو دن بھر کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا ہے۔
گریپ فروٹ میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس کے وزن کا 88 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے کھانے سے ڈی ہائیڈریشن سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
گریپ فروٹ میں وٹامن سی موجود ہوتا ہے جو جِلد کو سورج کی روشنی، عمر میں اضافے اور ورم سے ہونے والے نقصان سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
یہ وٹامن جِلد کو ہموار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ وٹامن سی سے بھرپور غذاؤں جیسے گریپ فروٹ کے استعمال سے عمر میں اضافے سے جِلد پر مرتب ہونے والے اثرات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
وٹامن سی سے جسم میں کولیگن نامی ہارمون زیادہ مقدار میں بنتا ہے جو جِلد کی نمی بڑھانے اور جھریوں سے بچانے میں کردار ادا کرتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔